سانس کی ڈوری روزمرہ کے جن کاموں سے بندھی ہوئی ہے ان کا تعلق سماج میں اپنا وقت خوش خوش گزارنے سے ہے۔ ”اپنا خیال رکھئے گا“ خوش رہییئ“ قسم کی ہدایات ہم سارا دن ایک دوسرے کو دیتے رہتے ہیں، حتیٰ کہ بعض شہروں کے صدر دروازوں پر جلی حروف میں ”مسکرائیے“ بھی لکھا ہوا ملتا ہے، مگر کتنی عجیب بات ہے کہ خوش خوش وقت گزارنے کیلئے جس طرح کے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ان کا تو اگر کوئی بیان کرنے بیٹھ جائے تو زبان پر چھالے پڑ جاتے ہیں ان حالات میں کوئی بھی کیسے خوش رہ سکتا ہے گزشتہ کل میر تقی میر نے کہا تھا۔
حال ِ بد گفتنی نہیں میرا
تم نے پوچھا تو مہربانی کی
اور وہی حالات آج بھی ہیں جن کو دیکھ کر وہی بات ایک اور زاویے سے ریاض مجید بھی کہتا ہے
وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے
رو پڑا وہ آپ مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے
گویا گردش دوراں اور کٹھور سماج کی چکی کے دو پاٹن کے بیچ گزرنے والی زندگی میں خوش خوش وقت کاٹنا کسی معجزہ سے کم نہیں۔ پھر ادب کی دنیا کو دیکھا جائے تو وہاں بھی دو ٹوک فیصلہ دے دیا گیا ہے کہ ہمارے بہترین گیت ”المیہ“ ہیں۔ ایسے میں وہ 25واں گھنٹہ کہاں سے آئے جس میں شگفتگی یا مزاح اپنا گھونگھٹ الٹ سکے۔ اس لئے جو لوگ اپنا جی کڑا کر کے دکھی دلوں پر مزاح کے پھاہے رکھتے ہیں ان کے کام کو میں صدقہ ئجاریہ سمجھتا ہوں۔ طنز کو جب مزاح کے پیرائے میں پرویا جاتا ہے تو فکاہیہ تحریریں جنم لیتی ہیں، اخبارات کی مجبوری اور وتیرہ یہ ہے کہ وہ اپنی پسندیدہ سنجیدہ سرگرمیوں کے اطراف میں ہی گزر بسر کرتے ہیں، آغاز میں اخبارات سے جڑے ہوئے زعما کو جب احساس ہوا کہ قاری اخبار کی تمام تر سنجیدگی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا تو فکاہیہ کالم کے لئے راستہ ہموار ہوا۔یہ ایک طرح سے وہ ”ڈرامیٹک ریلیف“ ہے جو تھیئٹرسے لے کر فلم اور ریڈیائی ڈراموں تک میں برتا جاتا ہے یعنی جب فلم میں بھی بہت بھاری بھر کم المیہ مناظر دکھائے جاتے ہیں تو فوراً ایک مزاحیہ ٹریک چل پڑتا ہے۔ جو ظاہر ہے دیکھنے والے کیلئے ایک طرح سے سکھ کا سانس لینے کا موقع مہیا کرتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ کسی بھی فلم کا کوئی سین یا مکالمہ ہم اگر یاد کرتے یا دہراتے ہیں تو فلم کے مزاحیہ ٹریک سے متعلق ہوتا ہے چنانچہ نذر،دلجیت مرزا،ظریف سے لے کر رنگیلا، لہری، ننھا اور منور ظریف تک کے مزاحیہ فنکاروں کی حرکتیں اور مزاحیہ ڈائیلاگ ہم اپنی مجلسی زندگی میں ایک دوسرے سے شئیر کرتے اور خوش ہوتے ہیں، اسی طرح کے ڈرامیٹک ریلیف کیلئے اخبارات میں بھی سنجیدہ اور سنسنی خیز خبروں،دکھ بھرے بیانات اور خشک موضوعات پر مضامین کے درمیان ایک شگفتہ تحریر یعنی فکاہیہ کالم کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی گئی مگر بد قسمتی سے جو امتداد زمانہ کے ساتھ اب تیزی سے نا پید ہو رہی ہے کیونکہ اب کالم کے نام پر زیادہ تر تبصرے،تجزئیے اور یک رخی مضامین شائع کئے جاتے ہیں۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ معاشرہ میں میں پائی جانے والے برائیوں اور بے چینیوں کے حوالے سے ایکً فکاہیہ کالم نگار ہی ایک بھر پور کردار ادا کرتا ہے کیونکہ یہ کردار غیر محسوس طریقہ سے مسئلہ کو سامنے لانے کی صلاحیت سے مملو ہوتا ہے۔ براہ راست اور دو ٹوک انداز تحریراطلاع اور اصلاح سے زیادہ اکثر اوقات کوئی حکم نامہ یا سرمن بن جاتی ہے جس سے قاری کے بدکنے کے امکان اس لئے بڑھ جاتے ہیں کیونکہ اخبار ات میں چھپنے والی تحریر دیکھتے ہی دیکھتے اب پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے اوریوں بھی ان دنوں سارے اخبارات ڈیجیٹل ہونے کیلئے اڑان بھرنے لگے ہیں اس لئے ایک سنجیدہ اور حساس قاری یہ نہیں چاہتا کہ اس کی خامیوں کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑی جائے جب کہ فکاہیہ کالم نگار بات کو مزاح میں اس طرح لپیٹ کر کرتا ہے کہ قاری کیلئے سوچ کے کئی در وا ہو جاتے ہیں۔یہ غیر محسوس اصلاح کا فریضہ ادا کرتا ہے۔ فکاہیہ کالم نگاری کی صحافتی ادب میں ا پنی ایک ا ہمیت ہے چونکہ یہ طے ہے کہ ادب زندگی کو شائستگی بخشتا ہے تہذیب عطا کرتا ہے اس لئے ادب کی کوئی بھی صنف غیر اہم یا کم اہم نہیں ہو سکتی۔ پھر فکاہیہ کالم کا فوری تعلق کتاب کی بجائے روزانہ شائع ہو نے والے اخبارات سے ہے اس لئے باقی اصنا ف کے مقابلے میں اس اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ہمارے ہاں ویسے بھی اچھی سے اچھی کتاب پانچ سو سے لے کر دو ہزار تک شائع ہوتی ہے جب کہ کوئی بھی کالم اچھے اخبارات کے دوش پر اپنے ہزار ہا پڑھنے والوں کے پاس ہر صبح پہنچ جاتا ہے اس لحاظ سے اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ آج کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں فکاہیہ کالم نگاری کی اہمیت و ضرورت اور بڑھ گئی ہے ویسے بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کو ادب یا اس کی اصناف خصوصاً فکاہیہ کالم نگاری سے کوئی مسابقت اس لئے نہیں ہے کہ دونوں کا ڈومین الگ الگ ہے۔ سائنس کا ٹارگٹ جسم ہے وجود ہے اور کائنات کی تسخیر کے ساتھ ساتھ انسان کو سہولتیں بہم پہنچانا ہے سائنس بہت سے حوالوں سے ممد تو ہو سکتی ہے، جیسے وہ میوزیکل انسٹرومنٹس تو ایک سے ایک عمدہ بنا کر دے سکتی ہے، مگرموسیقار کے ذہن میں پیدا ہونے والی لا جواب اورلا زوال دھنوں کا ادراک نہیں رکھتی، آج کا کمپیوٹر ایک کلک سے بہت سے تخلیقی کاموں کو محفوظ توکر سکتا ہے کافور بھی کر سکتا ہے شاید بگاڑنے پر بھی قادر ہو تا ہو مگر از خود ”تخلیق“ نہیں کر سکتا۔ اسی طرح وہ آرام دہ بیڈ تو بنا دے گا، ماں کی لوری بھی میوزک ٹریک پرریکارڈ کر دے گا۔ مگر لوری از خود تخلیق کر کے نیند کو بلانے پر قادر نہیں ہو سکتا۔تاہم فکاہیہ کالم یا کوئی ایسی شگفتہ تحریر جو اپنے اندر قاری سے خود کو پڑھوانے کا سا جادو اور تاثیر رکھتی ہو اس کا برتنا اور لکھنا سہل نہیں ہے یہ کام ایک بھر پور تخلیقی ریاضت کا متقاضی ہے اور سہل انگار قلمکار اس طرح کی ریاضت کا کشٹ نہیں کھینچتے کل امیر مینائی نے شعر گوئی کے بارے میں کہا تھا۔
خشک سیروں تن ِ شاعر کا لہو ہو تا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرع تر کی صورت
اسی مصرع تر کی تلاش میں بھی فکاہیہ کالم نگار کا بھی سیروں خون خشک ہو تا ہے یوں بھی شعر ہی کی طرح فکاہی ادب کا کام جسم نہیں روح کو سرشار کرنا ہو تا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ اب فکاہیہ کالم نگار بس گنتی ہی کے رہ گئے ہیں اس لئے ان کا دم غنیمت ہے۔ البتہ ماضی کی بات کی جائے جب ایک سے بڑھ کر ایک عمدہ فکاہیہ کالم نگار پڑھنے والوں کے دلوں کو کہیں بہت اندر سے چھوتا تھا۔ ابراہیم جلیس،چراغ حسن حسرت،شوکت تھانوی،ابن انشا سے لے کر نصراللہ خان اور ارشاد احمد خان تک کو آج بھی پڑھا جائے تو معلوم ہو کہ یہ کتنی چابکدستی سے چٹکیاں بھرتے ہوئے بات کرتے ہیں اور چھری کی نوک سے گدگدی کرتے ہیں جس میں مزہ بھی ہے، میٹھا میٹھا درد بھی اور اپنا جائزہ لینے پر آمادہ کرنے کی خداداد صلاحیت بھی اور یہی ان کا خاصا رہاہے۔لیکن کیا کیا جائے کہ اب ہم ایک مختلف دور میں سانس لے رہے ہیں اب مزاح کے پیرائے میں لکھنے والے یا محفل میں بات کرنے والے کو کوئی سنجیدہ نہیں لیتا اور اسے ہنسوڑ اور مخولیا کہہ کر اس سے منہ موڑ لیا جاتا ہے اور محفل میں سنجیدگی اوڑھے ہوئے کم سخن کو دانشورسمجھا جاتاہے، اور یہ بات کس کو سمجھائی جائے کہ کوئی سننے کے لئے آمادہ ہی نہیں، کلیم عاجز نے کیا خوب کہا ہے۔
سنے گا کون میری چاک دامانی کا افسانہ
یہاں سب اپنے اپنے پیراہن کی بات کرتے ہیں