بدامنی اور مہنگائی

گزشتہ چند ماہ کے دوران پشاور اور ملک کے دیگر شہروں اور اضلاع میں جرائم کی وارداتوں میں بے حد اضافہ ہوا ہے جن میں دیگر عوامل کیساتھ ساتھ مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ایک اہم وجہ ہے معاشی بدحالی جہاں ملک بھر میں گداگری میں اضافے کا سبب بن رہی ہے وہاں یہ صورتحال ملک میں امن وامان خراب کرنے کی ایک بڑی وجہ کے طورپر سامنے آرہی ہے یقینا یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے جس کو قابو میں کرنے کی ذمہ داری جہاں ایک طرف پولیس پر ہے وہاں حکومت اور دیگر اداروں کو بھی صورتحال بہتر بنانے‘ مہنگائی میں کمی لانے‘ روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے عملی اور موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے بدقسمتی سے ہمارے ہاں کسی مسئلے کے حل کی بجائے مٹی ڈالنے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے ایسے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں جن سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاسکے اخبارات‘ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر تصاویر ڈالی جاتی ہیں دعویٰ کیا جاتا ہے مسئلہ حل کردیاگیا ہے مگر مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے بلکہ توجہ نہ ملنے سے مزید بگڑ جاتا ہے۔ دیکھا جائے تومہنگائی‘ بے روزگاری اور موجودہ بدحال معاشی صورتحال  ن ے  دیگر شعبوں کو متاثر کرنے کیساتھ ساتھ اب امن وامان کو بھی متاثر کرنا شروع کیا ہے گزشتہ چند ماہ کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو دیگر شہروں اور اضلاع خصوصاً پشاور کے شہری اور مضافاتی علاقوں میں موبائل اور نقدی چھیننے‘ کار اور موٹر سائیکل لفٹنگ‘چوری‘ ڈکیتی‘ رہزنی اور نقب زنی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے لوگ شام کے بعد اندرون شہر کی گلیوں‘ رنگ روڈ اور دیگر علاقوں میں پھرنے سے ڈرنے لگے ہیں کسی بھی گلی یا کسی بھی سڑک پر نہ صرف موٹر سائیکل سوار آپ کے ہاتھ سے موبائل چھین سکتے ہیں بلکہ اسلحہ کی نوک پر آپ کو نقدی‘ گاڑی اور موٹر سائیکل سے محروم کر سکتے ہیں۔ پشاور پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال اگست اور ستمبر کے مہینوں میں کارلفٹنگ کے23‘ موٹر سائیکل لفٹنگ کے36 اور موبائل چھیننے کے12واقعات ہوئے جبکہ اس سال اسی دو ماہ کے دوران کارلفٹنگ کے واقعات کی تعداد21 موٹرسائیکل لفٹنگ کی تعداد 22 اور موبائل چھیننے کے واقعات کی تعداد17 رہی بھتہ خوری کے  دو واقعات رجسٹر ہوئے،  ان رجسٹرڈ شدہ واقعات کے ساتھ کئی ایسے واقعات بھی ہو سکتے ہیں جن کی رپورٹ درج نہیں ہوسکی۔ صوبائی پولیس سربراہ معظم جاہ انصاری نے گزشتہ دنوں صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے پشاور پولیس کا اعلیٰ سطحی اجلاس بلا کر اسکی صدارت کی اور اس بات کا سخت نوٹس لیا کہ کیوں پولیس سٹیشن کا عملہ ایف آئی آر درج نہیں کرتا اگر مقدمات بھی درج نہ ہوں تو کیسے صورتحال کا احساس ہوگا اور کیسے اس کا حل تلاش کیا جاسکے گا صوبہ بھر میں اعلیٰ افسران اور ایس ایچ اوز کو واضح ہدایت کی گئی ہے کہ چند گرام چرس کے پرچوں اور لائسنس یافتہ پستول رکھنے پر مقدمات درج کرنے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ رہزنی چوری ڈکیتی اغواء کارلفٹنگ اور دیگر جرائم میں فوری پرچے دیئے جائیں تاکہ اصل اعدادوشمار واقعات کی جگہوں وقت اور نوعیتوں کے لحاظ سے حکمت عملی ترتیب دی جائے اور  بہتر انٹیلی جنس اعلانات کے ذریعے ملوث افراد اور گینگز کی نشاندہی کرکے انکے خلاف اقدامات کئے جارہے ہیں چند ایک مقامات میں بروقت کاروائی کرکے پولیس مقابلوں کے بعد زخمی مبینہ رہزن گرفتار بھی کئے گئے ہیں پشاور پولیس کے سربراہ عباس احسن کے مطابق چند ماہ کے دوران کاروائیوں میں 1056 مختلف گینگز کے ارکان پکڑے گئے ہیں اور ان سے کروڑوں روپے کی نقدی اور لوٹا گیا سامان برآمد کیاگیا ہے امید ہے ان اقدامات سے امن وامان کی صورتحال بہتر ہوگی لوگوں میں بڑھتا ہوا خوف کم ہوگا اور وہ باہر نکل سکیں گے مگر اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ افسران اور اہلکار اس بات کا احساس کریں کہ پولیس حکومت اور دیگر اداروں کے افسران اور اہلکاروں کا فرض ہے کہ عام آدمی کو سہولت فراہم کریں ہر مقدمہ فوری درج کیا جائے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کاروائیاں ہوں کیونکہ ان افسروں اور اہلکاروں کو تنخواہیں مراعات اور یہ بے شمار اختیارات صرف ایک مقصد کیلئے دیئے گئے ہیں اور وہ ہے عوام کے جان و مال اور عزت کا تحفظ ان کے عزت نفس کا خیال اور انکے ہر جائز مسئلے کا حل۔