اس وقت دنیا تیز ی سے آگے کی طرف بڑھ رہی ہے خاص طورپر تعلیم کے محاذ پر ترقی یافتہ ملکوں کی پیشقدمی قابل رشک دکھائی دیتی ہے مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے اس شعبہ پرسب سے زیادہ جمودطاری ہے دْنیا بدل رہی ہے اور ہم نے خود کو نصاب بدلنے پر مامور کررکھا ہے۔ دْنیا بدل رہی ہے اور ہم ابھی اسی شش و پنج میں ہیں کہ تعلیمی بجٹ بڑھا کر شرمندگی سے بچا جائے یا اس میں کچھ کتربیونت ممکن ہوسکتی ہے۔ دْنیا بدل رہی ہے اور ہم نے اب تک یہی نہیں سوچا کہ کس طرح بدلنا چاہئے۔ ہم نے اب تک اْن ملکوں کے تعلیمی نظام کو قریب سے دیکھنے، سمجھنے اور اس سے استفادہ کرنے کی زحمت نہیں کی ہے جن کا معیارِ تعلیم دْنیا میں سب سے بہتر مانا جاتا ہے مثلاً فن لینڈ، ڈنمارک، امریکہ، برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ وغیرہ۔ ہونا یہ چاہئے کہ حکومت ایک تعلیمی کمیٹی کو، جو خالصتاً تعلیمی ہو نہ کہ سیاسی، ہر سال کسی ایک ملک کے کم از کم ایک ماہ کے دورے پرروانہ کرے۔ یہ کمیٹی تعلیمی نظام کا بچشم خود جائزہ لے، اساتذہ، انتظامیہ اور طلبہ سے ملاقاتیں کرے، مختلف تعلیمی مراحل میں جو نصاب طلبہ کو پڑھایا جاتا ہے اس کی آگاہی حاصل کرے اور دیگر تمام اْمورِ تعلیم و تعلم کا مشاہدہ کرے مثلاً تدریس نصاب کا طریقہ، درس گاہوں کا مجموعی ماحول، طلبہ کا ایک دوسرے سے تعامل، طلبہ اور اساتذہ کا تناسب (کتنے طلبہ پر ایک استاذ) اورتعلیم کے وہ طریقے جن میں جدت و ندرت ہو نیز جو جدید تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے خاص طور پر وضع کئے گئے ہوں۔ ایسے تعلیمی دوروں سے جس قدر استفادہ ممکن ہو، کیا جانا چاہئے، یہ نہ ہو کہ تعلیمی کمیٹی دورہ تو کرے، اپنی رپورٹ بھی پیش کرے مگر وہ دفتر ِوزارت تعلیم میں دھول کھاتی رہے۔ یہ ایک مشورہ ہے۔ ممکن ہے وزارت کے کارپرداز اس سے بہتر طریقہ تلاش کریں۔ جو بھی ہو مگر استفادہ بھرپور ہو۔ اسے نتیجہ خیز بنانے کی کوشش مرکزی حکومت کی فعال سرپرستی میں ہونی چاہئے۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے ملک کو کسی بھی تعلیمی کسوٹی پر سو فیصد پورا اْترنا چاہئے تھا اور عالمی رینکنگ میں ٹاپ ملکوں میں سے ایک ہونا چاہئے تھا، وہ آج تقریباً ہر درجہ بندی میں پیچھے ہے۔ آج بھی ملک کے بچوں کو معیاری تعلیم نہیں مل رہی ہے جس کی وجہ سے ہم پائیدار ترقی کے معیارات پر پورا نہیں اْتر رہے ہیں نجی اور سرکاری نیز دیہی اور شہری درس گاہوں میں معیارِ تعلیم کی نسبت سے پائی جانے والی عدم مساوات پوری طرح سے واضح ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ اس لئے ہے کہ رائٹ ٹو ایجوکیشن کے ذریعہ بچے سکول کی دہلیز تک تو پہنچ جاتے ہیں مگر سکول پہنچ جانا نہ تو حصول تعلیم کی ضمانت ہے نہ ہی معیاری تعلیم کی یہ سوال ہنوز تشنہ جواب ہے کہ کیا بنیادی اور ثانوی تعلیم کے سرکاری اداروں کو بہتر بنایا گیاہے؟ اگر ہاں تو کیا سرکاری سکول عام شہریوں کی پہلی پسند بنے؟ مشاہدہ تو یہ کہتا ہے کہ عام شہری اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے سرکاری سکولوں کے مقابلے میں نجی سکولوں کو ترجیح دیتے ہیں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں معیارِ تعلیم کی کوئی واضح تعریف متعین نہیں ہوسکی ہے۔ جن اداروں کے نتائج بہتر ہوتے ہیں اْن کے معیارِ تعلیم کو اعلیٰ تسلیم کرلیا جاتا ہے اور جن سکولوں کے نتائج ناقص ہوتے ہیں اْن کے معیارِ تعلیم کو ادنیٰ سمجھ لیا جاتا ہے جبکہ صورتحال اس کے برعکس بھی ہوسکتی ہے۔ ممکن ہے خاص امتحانی نقطہ ء نظر سے طلبہ کی رہنمائی کرنے والے اداروں کے نتائج بہتر آتے ہوں اور امتحانی نقطہ ء نظر کو خصوصی اہمیت دیئے بغیر طلبہ کی اہلیت میں اضافے اور ان کی ہمہ جہتی نشوونما کی فکر کرنے والے اداروں کے نتائج اتنے اچھے نہ ہوتے ہوں جبکہ خالص تعلیمی زاویہء نگاہ سے آخر الذکر کی کاوشیں زیادہ قابل قدر ہوتی ہوں یہ ایک مسئلہ ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ شہری و دیہی علاقوں کے معیارِ تعلیم اور سکول انفراسٹرکچر میں موازنہ غلط نہیں مگرمسئلہ صرف شہری اور دیہی علاقوں کے معیار کا نہیں، شہری اور شہری معیارکا بھی ہے۔ وہ اس طرح کہ ایک ہی شہر کے چند سکولوں کا تعلیمی معیار بھی بہتر اور انفراسٹرکچر بھی بہتر ہوسکتا ہے مگر اسی شہری کے دیگر سکولوں کی حالت خستہ ہوسکتی ہے۔ اسی لئے، تعلیمی اداروں کو خواہ وہ شہری علاقوں کے ہوں یا دیہی، امیر علاقوں کے ہوں یا پسماندہ علاقوں کے، ایک دوسرے کے برابر لانے کی کوشش ہی سے حالات سنور سکتے ہیں اور تعلیم کے ذریعہ پائیدار ترقی کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔ ارباب اقتدار کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ پسماندہ بستیوں کے طلبہ بھی اسی ملک کے ہیں اور دیہی علاقوں میں پڑھنے والے بچے بھی اسی سرزمین کے۔ ملک کی ترقی میں ہر دو طرح کے طلبہ کا حصہ ہونا چاہئے کیونکہ تعلیم اور معیاری تعلیم پر کسی ایک طبقے، علاقے یا مخصوص معاشی پس منظر کا حق نہیں، یہ سب کیلئے ہونی چاہئے۔ کورونا کے دور میں بہت کچھ تہ و بالا ہوچکا ہے جس میں عوام کے معاشی نقصان کو پوری شدت کے ساتھ محسوس کیا جاسکتا ہے مگر جس نقصان کو ہم نقصان ِ عظیم تصور کرتے ہیں وہ طلبہ کا تعلیمی نقصان ہے جس کے بعد اب حکومت کو تعلیمی محاذپر اپنی پیشقدمی کو تیز تر کرنے کے لئے حکمت عملی اختیار کرناہوگی پہلے قدم کے طورپرتو حکومت نے ملک بھر میں یکساں تعلیمی نصاب کی ترویج کاصائب فیصلہ کیاہواہے تاہم نجی سکول والے اس راہ میں مزاحم ہورہے ہیں ان کی بلیک میلنگ سے بچنے کے لئے حکومت کو سرکاری سکولوں کے معیارکو اس قدربلند کرناہوگاکہ سرکاری سکول ہی عام لوگوں کی پہلی ترجیح قرار پائیں اس سلسلہ میں اساتذہ کو بھی اپنا کردار نبھاناہوگا اس وقت توحالت یہ ہے کہ سرکاری سکولوں کے پچاس فیصد سے زائد اساتذہ کے اپنے بچے نجی سکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں تعلیمی محاذ پر اس وقت بھی بہت کچھ کرنے اور ہم سب کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔