اکتیس اگست دوہزار سولہ: تحریک اِنصاف کے سربراہ عمران خان نے خیبرپختونخوا میں ”صحت اِنصاف کارڈ‘‘کے نام سے ”بیمہ پالیسی‘‘کا افتتاح کیا‘ جس کے تحت آمدنی کے لحاظ سے کم وسائل رکھنے والی خیبرپختونخوا کی قریب نصف آبادی کو علاج معالجے کی مفت سہولیات میسر آئیں۔ قومی سطح پر بھی یہ اپنی نوعیت کی منفرد حکمت ِعملی تھی‘ جس کے ذریعے نجی علاج گاہوں سے پیچیدہ امراض کا علاج ممکن ہوا۔جون دوہزار اکیس: خیبرپختونخوا حکومت نے قانون سازی کا فیصلہ کیا جس کے ذریعے صحت انصاف کارڈ کو تحفظ فراہم ہو سکے اور بعد میں آنے والی حکومتیں اِس حکمت عملی کو سیاسی وجوہات کی بنا ء پر ختم نہ کریں۔ مجوزہ مسودہئ قانون کا نام ”خیبرپختونخوا یونیورسل ہیلتھ کوریج ایکٹ 2021ء‘‘رکھا گیا جو ”صحت انصاف کارڈ“ نامی حکمت عملی کو قانونی تحفظ فراہم کرے گا اور بتایا گیا کہ اِس قانون کی منظوری کے بعد مفت علاج معالجہ بذریعہ بیمہ آئینی حق اور بنیادی ضرورت کے طور پر دیا جائے گا۔ مذکورہ قانون کے تحت ایک بورڈ آف گورنرز کی تشکیل ممکن ہو گی جو صحت انصاف کارڈ سے متعلق فوری فیصلے کرنے کی مجاز ہوگی جبکہ قبل ازیں ایک نگران شعبے ”پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ‘‘کے ذریعے پورے خیبرپختونخوا میں صحت انصاف کارڈ کے معاملات کی مالی و انتظامی نگرانی ہو رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ 2016ء میں صحت انصاف کارڈ کے آغاز پر 51 فیصد‘ 2017ء میں 69 فیصد اور نومبر 2020ء میں پورے خیبرپختونخوا کے 72 لاکھ (7.2 ملین) خاندانوں کو صحت انصاف کارڈ کے ذریعے علاج معالجے کی عمومی و خصوصی سہولیات مفت فراہم ہیں اور اِس منصوبے کے تحت ملک بھر کے 500 سرکاری و نجی ہسپتالوں کو مجاز قرار دیا گیا ہے کہ وہ مفت علاج کریں جن کے بعدازاں اخراجات بیمہ کمپنی کی وساطت سے خیبرپختونخوا حکومت ادا کرتی ہے۔ جون 2021ء تک خیبرپختونخوا حکومت نے ”صحت انصاف کارڈ“ کے ذریعے ہوئے علاج معالجے پر 12 ارب روپے خرچ کئے اور جب سے صحت انصاف کارڈ کے تحت علاج معالجے کو پورے صوبے (خیبرپختونخوا) تک پھیلایا گیا ہے‘ اِس سہولت سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے کیونکہ اِس میں ہر خاندان کو 10 لاکھ (ایک ملین) روپے کے مساوی علاج معالجہ مقررہ ہسپتالوں سے کرانے کی سہولت دی گئی ہے۔ صحت انصاف کارڈ کی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے اگست 2018ء میں وفاقی حکومت نے اِسے دیگر صوبوں تک پھیلا دیا۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ ”صحت اِنصاف کارڈ“ کس قدر کامیاب رہا کہ اِس کے تحت ایک دن میں (اوسطاً) 2100مریضوں کا علاج معالجہ ہو رہا ہے۔نومبر دوہزار اکیس: خیبرپختونخوا حکومت کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق ایک سال کے دوران ’صحت انصاف کارڈ‘ کے تحت مفت علاج معالجے کی سہولت سے 4 لاکھ 52 ہزار 144 مریضوں نے استفادہ کیا جبکہ خیبرپختونخوا کے 74 لاکھ 70 ہزار خاندانوں کو اِس حکمت ِعملی سے مفت علاج معالجے کی سہولیات میسر ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ پورے خیبرپختونخوا کو نومبر 2020ء میں ’صحت انصاف کارڈ‘ میں شامل کر لیا گیا تھا اور ایک سال گزرنے پر جو اعدادوشمار سامنے آئے ہیں اُن سے معلوم ہوا ہے کہ مریضوں کی 69 فیصد تعداد نے سرکاری کی بجائے نجی ہسپتالوں سے علاج کروانے کو ترجیح دی ہے۔ مریضوں کی یہ تعداد 3 لاکھ 11 ہزار 385 ہے جبکہ سرکاری علاج گاہوں سے 1 لاکھ 40 ہزار 759 مریض ایسے تھے جنہوں نے سرکاری ہسپتالوں سے رجوع کیا۔ صحت انصاف کارڈ جاری ہوتے وقت اِس خدشے کا اظہار 4 بنیادی وجوہات کی بنا ء پر کیا جا رہا تھا کہ اِس حکمت عملی سے نجی ہسپتالوں کو زیادہ فائدہ ہوگا۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ سرکاری علاج گاہوں پر مریضوں کا دباؤ پہلے ہی زیادہ ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سرکاری علاج گاہوں میں تمام امراض بالخصوص تمام پیچیدہ امراض کے علاج کی سہولیات میسر نہیں ہوتیں۔ تیسرا مریضوں کے رش کی وجہ سے جراحت (آپریشنز) کے لئے کئی ہفتوں بلکہ مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور چوتھا نجی علاج گاہوں میں علاج معالجے کی سہولیات و خدمات کا معیار سرکاری علاج گاہوں سے بہتر ہے۔ ایک مشورہ یہ بھی سامنے آیا تھا کہ صحت انصاف کارڈ کے ذریعے علاج معالجے کی سہولیات کو صرف سرکاری ہسپتالوں تک محدود رکھا جائے تاکہ زیادہ آمدنی کے سبب سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات و خدمات کو بہتر بنایا جا سکے اور اِن کی وسعت ممکن ہو لیکن ظاہر ہے کہ سیاسی حکومتوں کی سوچ بچار میں سیاسی و کاروباری اہداف و فوائد کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے اِس لئے سوچ بچار میں اُن تجاویز یا آراء کو خاطرخواہ اہمیت نہ دی گئی جو صحت کے شعبے میں ماہرین کی جانب سے ”مفت مشوروں“ کی صورت سامنے آ رہی تھیں۔صحت انصاف کارڈ کے پورے صوبے تک پھیلاؤ کے ایک سال میں صوبائی خزانے سے قریب 11 ارب (10.94 بلین) روپے خرچ ہوئے ہیں جن کا 69 فیصد نجی علاج گاہوں کے حصے میں آیا ہے اور اِس بدولت کئی نجی ہسپتال ایسے ہیں کہ جو اِس سے قبل خسارے میں چل رہے تھے۔ جب ہم سرکاری علاج گاہوں کے منافع کی بات کرتے ہیں تو اِس کے ساتھ ایک سماجی ذمہ داری کی ادائیگی بھی ہوتی ہے کہ صحت انصاف کارڈ کے علاؤہ یہ علاج گاہیں مریضوں کو منافع کی نظر سے نہیں دیکھتیں بلکہ ایک طرح سے سماجی خدمت بطور ذمہ داری بھی ادا کرتی ہیں جبکہ نجی ہسپتال خالصتاً منافع کی بنیاد پر اپنے ہاں علاج معالجے کی خدمات اور جملہ سہولیات تک مریضوں کو رسائی دیتے ہیں۔ بلاشک و شبہ ”صحت انصاف کارڈ“ نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ قومی سطح پر نہایت ہی انقلابی عمدہ اور حسب حال و ضرورت حکمت ِعملی ہے جس کا تسلسل رہنا چاہئے اور اِسے قانونی تحفظ فراہم کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی دور ہونی چاہئیں لیکن اِس طریق میں موجود سقم سے مبینہ فائدہ اُٹھانے والی نجی علاج گاہوں کی صورت ہونے والے نقصان (مالی وسائل کے ضیاع) کو روکنے اور احتساب (سزأ و جزأ) کا نظام بھی متعارف ہونا چاہئے۔ ”سب اچھا“ کی جو اطلاعات فیصلہ سازوں کو دی جاتی ہیں وہ سب کی سب درست نہیں ہوتیں۔