جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن کے رہنما‘ سابق وزیراعلیٰ اکرم خان درانی نے اِس اَمر پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ اراکین صوبائی اسمبلی کا معمول بن گیا ہے کہ وہ قانون ساز ایوان کے اجلاسوں سے غیرحاضر رہتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات میں خیبرپختونخوا صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے نوے‘ بنوں فور سے منتخب ہونے والے اکرم خان درانی نے سپیکر کی توجہ اراکین کی غیرحاضری کی جانب دلائی تھی جس کے بعد اسپیکر نے اراکین کی انگوٹھوں پر مبنی حاضری کا نظام (بائیو میٹرک) متعارف کرانے کی تجویز سے اتفاق کیا اور کہا کہ ”ایسا کرنے سے اراکین کی حاضری بہتر ہونا ممکن ہے۔“ اَمر واقعہ یہ ہے کہ صوبائی اسمبلی اگر اِس نہج تک آ پہنچی ہے کہ یہاں اراکین کی حاضری ممکن بنانے کیلئے بائیومیٹرک تصدیق کا نظام نصب کیا جائے گا تو یہ ضرورت کئی امور کی نشاندہی کرتی ہے۔ سب سے پہلا لائق توجہ اَمر یہ ہے کہ کچھ اراکین ِصوبائی اسمبلی کی قانون سازی یا قوانین پر غور کرنے سے متعلق امور میں ”عدم دلچسپی“ عیاں ہے اور اِن کیلئے اسمبلی اجلاسوں میں کشش نہیں رہی۔ ایک عام آدمی (ہم عوام) کیلئے صوبائی اسمبلی ایوان کے اراکین کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ قوانین میں موجود سقم دور کریں۔ سرکاری اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنائیں۔ سرکاری اداروں کی کارکردگی کا احتساب کریں۔ سزأ و جزأ کے نظام متعارف کرائیں اور ایسے عوامی نمائندوں کی بھی ایوانوں میں کمی نہیں جو ان ذمہ داریوں کا احساس بھی رکھتے ہیں اور اس کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش بھی کرتے ہیں، شاید انہی کی وجہ سے مختلف امور میں قانون سازی جاری ہے۔لائق توجہ ہے کہ اراکین ِصوبائی اسمبلی کی حاضری کیلئے بائیومیٹرک تصدیق کا نظام نصب ہو بھی جائے‘ جس پر لاکھوں روپے خرچ ہوں گے اور ہونا چاہئے کہ یہ لاکھوں روپے اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات سے منہا کئے جائیں نہ کہ عوام کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والے پیسے سے ادا ہوں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ کچھ اراکین تو ایوان میں حاضری ہی کو ضروری نہیں سمجھتے جو ان امیدواروں کے کئے کرائے پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے جو باقاعدگی سے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں اور قانون سازی سمیت عوام کے مسائل کے حوالے سے سرگرم رہتے ہیں۔ صوبائی اسمبلی میں اراکین کی حاضری اجلاس کے دورانیے کے دوران سوفیصدی یقینی صرف اُنہی ایام میں دیکھنے کو ملتی ہے جب قائد ایوان یا سینیٹ انتخابات کے مراحل درپیش ہوں اور جب ہر رکن اسمبلی نے ووٹ کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔ بصورت دیگر ایسا کوئی بھی قانون یا قاعدہ نہیں کہ جس کا استعمال کرتے ہوئے حزب اقتدار یا حزب اختلاف کے اراکین اسمبلی کو مجبور کیا جا سکے یا اُن کی رکنیت یا مراعات اسمبلی کو اُن کی اجلاس میں حاضری سے مشروط کیا جا سکے۔ اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھ کر اراکین اسمبلی کی اجلاس میں دلچسپی کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہوتا۔ اگر سپیکر اسمبلی اجلاس کے دوران موبائل فونز کو وقتی طور پر ’jammers‘ کے ذریعے ناکارہ بنا دیں تو بھی اجلاس کی کاروائی کیلئے مفید ہو سکتا ہے۔اُور اِس سے اراکین اسمبلی کی توجہات اجلاس کی جاری کاروائی پر مرکوز کی جا سکیں گی۔