قومی سلامتی کا دفاع

پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں پاکستان نے افغانستان میں امن کیلئے اپنا کردار اور افغان عوام کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کے اعلامیہ میں افغانستان میں پائیدار امن و استحکام کو خطے میں امن اور ترقی کیلئے ناگزیر قرار دیا گیا۔ سپیکر قومی اسمبلی کی زیر صدارت پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی تمام پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہاں نے شرکت کی۔اعلی عسکری حکام نے ملک کے سیاسی و پارلیمانی قائدین، ارکان پارلیمنٹ، چاروں صوبوں، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی قیادت کو اہم خارجہ امور، داخلی سلامتی، ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجوں، خطے میں تبدیلیوں خصوصاً تنازعہ کشمیر اور افغانستان کی حالیہ صورتحال پر بریفنگ دی،اجلاس میں پاک، افغان بارڈر کنٹرول سسٹم کے بارے میں بھی بتایا گیا اور اس امید کا اظہار کیا گیا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی،اجلاس کو بتایا گیا پاکستان افغان عوام کی حمایت اور تائید جاری رکھے گاپاکستان کی بھرپور کوشش ہے کہ موجودہ حالات افغانستان میں کسی اور انسانی و معاشی بحران کو جنم نہ دیں، اس سلسلے میں پاکستان عالمی برادری کے ساتھ مسلسل رابطے میں بھی ہے۔اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی، وزیر اعظم آزاد جموں و کشمیر اور وزیر اعلی گلگت بلتستان نے بھی شرکت کی،چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی اجلاس میں موجود تھے۔افغان مسئلے اور کشمیر کی صورت حال سمیت پاکستان کو درپیش بیشتر مسائل کافی گھمبیر ہیں جن کا قومی سلامتی سے براہ راست تعلق ہے۔ جب تک افغانستان میں صورتحال واضح نہیں ہوتی۔پاکستان کیلئے مہاجرین کی آمد اورامن و امان کا مسئلہ پیدا ہونے سمیت کئی چیلنج درپیش ہیں۔ جن سے نمٹنے کیلئے ملک کے اندر مکمل اتفاق و اتحاد، مفاہمت اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کورونا وائرس سے عالمی معیشت کے پاکستان پر پڑنے والے منفی اثرات سے نمٹنے کیلئے بھی سیاسی اور عسکری قیادت میں اتفاق اور ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ملکی بقاء و قومی سلامتی پر کسی سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جب ملک کا دفاع مضبوط اور پائیدار امن قائم ہوگا تو ترقی کا پہیہ بھی چلے گا، سیاست کا کھیل بھی جاری رہے گا۔ انتخابات بھی ہوں گے انتقال اقتدار کا عمل بھی خوش اسلوبی سے مکمل ہوگا۔ افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنا، مہاجرین کی آمد روکنا، خانہ جنگی کا شکار پڑوسی ملک میں انسانی المیہ سے بچنا اور کشمیر کاز کو آگے بڑھانا حکومت، اپوزیشن، عسکری قوت اور انتظامی مشینری کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ملک و قوم کو درپیش اہم مسائل کے حوالے سے سولو فلائٹ کی پالیسی اختیار کرنے کی بجائے قومی اتفاق رائے پیدا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔قومی سلامتی کے حوالے سے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلاکر آہنگی کی فضاء پیدا کرناایک خوش آئند امر ہے۔ غیر یقینی صورتحال کے سیاہ بادل چھٹنے تک قومی سلامتی کے اجلاس ہر مہینے ہونے چاہیئں اور ان کے فیصلوں پر عمل درآمد کاجائزہ لیتے رہنا ناگزیر ہے۔ وفاق کے ساتھ صوبوں کی سطح پر بھی قومی ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے صوبائی حکومتوں کو آگے آنا ہوگا۔اس سے قومی اتحاد کو بھی فروغ حاصل ہوگا اور حکومت کی کارکردگی پر بھی چیک رکھا جاسکے گا جس سے کارکردگی میں مزید بہتری آسکتی ہے۔