مہنگائی کا علاج: زرعی خودکفالت

مہنگائی کا توڑ ’زرعی انقلاب‘ ہے۔ پاکستان کی معیشت و معاشرت کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ملک ترقی کے عبوری مراحل سے گزر رہا ہے جس میں صنعتیں نسبتاً زیادہ مراعات یافتہ ہیں لیکن معیشت کی خصوصیت یہ ہے کہ اِس کی بنیادی زراعت ہے جسے نئی بلندیوں سے روشناس کرنے کیلئے ویلیو ایڈیشنز کیا جا رہا ہے اور یہ شعبہ عمومی (روایتی) طرز عمل سے ”خدمات کی فراہمی“ کی جانب منتقل ہو رہا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ صرف اپنی بنیادی مصنوعات کو فروخت کرنے اور دوسروں کو ان سے زیادہ منافع حاصل کرنے کیلئے استعمال کی اجازت دینا ہے جبکہ زراعت میں زیادہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھی۔ اِس سلسلے میں متعدد قومی اشارے اور اعشاریئے اِس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ قومی آمدنی اور مجموعی طلب میں اضافہ ہوا ہے جبکہ دیہات سے شہروں کی جانب نقل مکانی کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اس تناظر میں چھوٹے کاشتکاروں اور کسان گروپوں کا کردار بڑھتی ہوئی زرعی پیداوار کی مانگ کو پورا کرنے میں جتنی بھی کوشش کرے وہ ناکافی رہے گی جب تک مقامی کاشتکار برادریوں کیلئے منڈیوں سے رابطوں اور انہیں پیداواری سہولیات تک رسائی نہیں دیدی جاتی۔پاکستان کی 60 سالہ تاریخ سے متعلق اعدادوشمار گواہ ہیں کہ زراعت کی قومی پیداوار میں حصہ داری سال بہ سال کم ہو رہی ہے۔ عالمی بینک نے 2019ء میں جو اعدادوشمار جاری کئے تھے اُن کے مطابق 1960ء میں پاکستان کی زرعی پیداوار 43 فیصد تھی جو 2019ء میں کم ہو کر 22 فیصد رہ گئی۔ اُنیس سو ساٹھ میں جس شعبے کی قومی پیداوار میں حصہ داری (حجم) 1.6 ارب ڈالر تھا وہ دوہزاراُنیس میں قریب 72ارب ڈالر ہوا۔ اِس مرحلہئ فکر پر ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی سے متعلق اعدادوشمار بھی ذہن میں رکھنے ضروری ہیں کہ پاکستان کے شہری علاقوں کی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ جب ہم شہری آبادی میں اضافے کی بات کرتے ہیں اور اِس کا موازنہ دیہی علاقوں کی آبادی سے کرتے ہیں تو اِس کا بنیادی نکتہ یہ ہوتا ہے کہ شہری علاقوں کے رہنے والوں کی خوردنی ضروریات دیہی علاقوں سے پوری ہونا ہوتی ہیں اور اگر آبادی دیہات (زرعی معیشت و معاشرت) ترک کر کے شہروں کا رخ کرنے لگے تو اُن کی خوردنی ضروریات پورا کرنا ممکن نہیں رہتا اور جہاں زرعی اجناس کی طلب بڑھے تو اُسے پورا کرنے کی درآمدات پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یہی وہ مرحلہئ فکر ہے جہاں فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہئے کہ اگر وہ زرعی شعبے کو خاطرخواہ توجہ (مراعات) نہیں دیں گے تو قیمتی زرمبادلہ گندم‘ پیاز ادرک‘ تھوم وغیرہ یا پھر دالوں اور چینی کی صورت درآمدات کی نذر کرنا پڑے گا۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ عالمی منڈیوں سے زرعی اجناس کی خریداری کی صورت بیرون ملک کے کاشتکاروں اور کسانوں کو فائدہ پہنچانے کی بجائے پاکستان کے اپنے کاشتکاروں کی حالت بہتر بنائی جائے؟پاکستان کو صرف فی ایکڑ زرعی پیداوار میں اضافہ ہی نہیں بلکہ زرعی اجناس کی خام حالت سے مصنوعات کی تیاری جانب بھی راغب ہونا ہے اور اِس بات پر توجہ دینی ہے کہ جب ہمارے اپنے ٹماٹروں کی زیادہ پیداوار ہوتی ہے اور یہ جنس سڑکوں یا کوڑا دانوں میں کوڑیوں کے مول بکتی ہے تو اِس کے پیداواری یا نقل و حمل کے اخراجات بھی پورا کرنا ممکن نہیں ہوتے اور اِسی قسم کی صورتحال باغبان علاقوں میں دیکھنے کو ملتی ہے جہاں پھل خشک کرنے کا خاطرخواہ انتظام اور ٹیکنالوجی نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال اربوں روپے کا پھل ضائع ہو جاتا ہے۔ زراعت کو توجہ روزگار کی وجہ سے بھی ضروری ہے اور اِس سلسلے میں اعدادوشمار کافی بھیانک منظرنامہ پیش کر رہے ہیں۔ 1991ء میں زرعی شعبے کا فراہم کردہ روزگار 44.81فیصد تھا جس میں آبادی کے ساتھ اضافہ ہونا چاہئے تھا لیکن 2019ء میں زراعت کے شعبے سے فراہم کردہ روزگار میں کمی ہوتی چلی گئی اور یہ قریب سینتیس (36.9) فیصد تک کم ہو گئی جس کی وجہ سے زراعت کا قومی پیداوار میں تناسب مذکورہ عرصے میں کم ہو کر 38 فیصد سے 24 فیصد ہو چکا ہے!زرعی پیداوار میں کمی اور اِس پیداوار سے روزگار و برآمدات بڑھانے پر غور ضروری ہے۔ ملک میں زرعی شعبہ بالعموم کورونا وبا سے پیدا ہونے والی صورتحال سے متاثر ہے اور اِن معاشی مشکلات کے حالات میں اصلاحات کی ضرورت ہے جو اِس شعبے کے بنیادی ڈھانچے میں ساختی تبدیلیوں کا متقاضی سے وابستہ ہیں۔ کسان تنظیمیں اور کوآپریٹیو زرعی شعبے کیلئے بہتر مارکیٹ روابط‘ چھوٹے کاشتکاروں کسانوں اور دیگر زرعی مزدورں کیلئے بلاسود آسان شرائط پر قرضہ جات‘ فصلوں کا بیمہ اور تکنیکی مدد‘ بہتر ٹیکنالوجی تک رسائی اور اِن پٹ ایپلی کیشن کے ذریعے فائدہ پہنچانے میں مدد کر سکتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ زرعی شعبے کی ترقی کا مطلب روزگار کے مواقع‘ غذائی خودکفالت اور برآمدات ہیں جبکہ زرعی شعبے کو نظرانداز کرنے کا مطلب بیروزگار‘ غذائی عدم تحفظ اور درآمدات ہیں‘ جن کا پاکستان موجودہ معاشی و اقتصادی مشکلات میں متحمل نہیں ہوسکتا۔ آبادی کے تناسب سے زرعی پیداواری صلاحیت و پیداوار میں اضافے کیلئے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں میں شامل زراعت کے بنیادی ڈھانچے کیلئے ٹیکنالوجی کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر حکومت صنعتی بستیاں قائم کر سکتی ہیں تو ’ایگری کلچر زونز کیوں نہیں؟‘ جہاں زرعی علوم حاصل کرنے والوں کو اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے مواقع فراہم ہونے چاہئیں۔ کسی قوم کیلئے اپنے نوجوانوں پر انحصار اور یقین بڑی تبدیلی اور انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اِسی اصول سے ترقی کے باعث دیہی علاقوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو گی بلکہ شہروں سے دیہی علاقوں کی نقل مکانی کا امکان موجود ہے۔ زرعی پیداوار کو ریگولیٹ کرنے اور کسانوں کو آڑھت و منڈی پر اجارہ داری کرنے والوں سے بچانے میں حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ کاشتکاروں کو منافع بخش منڈیوں تک رسائی میں مدد دینے سے اُن کے منافع میں اضافہ اور مہنگائی کی شرح میں کمی جیسے اہداف باآسانی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔