اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نے دسمبر میں حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا فیصلہ کیا ہے۔ملک بھر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کیخلاف احتجاج کی حکمت عملی پر غور کیلئے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے قائدین سر جوڑ کر بیٹھے اجلاس میں موجودہ حالات کی مناسبت سے اپوزیشن نے اپنی حکمت عملی پر غور کیا۔اجلاس کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ تمام صوبوں میں مہنگائی کیخلاف احتجاج کیا جائے گا ملک گیر احتجاج کے بعد لانگ مارچ ہو گا۔ لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان باہمی مشاورت کے بعد میں کیا جائے گا۔ اجلاس میں پیپلزپارٹی کی پی ڈی ایم میں دوبارہ شمولیت پر بھی غور کیاگیا۔ اجلاس میں 13 نومبر کو کراچی، 17 نومبر کو کوئٹہ اور 20 نومبر کو پشاور میں مہنگائی مارچ کی تجویز دی گئی۔پی ڈی ایم کے اجلاس میں نیب ترمیمی آرڈیننس اورآئندہ انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کو مسترد کردیاگیا۔ انتخابی اصلاحات بل کوروکنے کیلئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن ارکان کو اپنی حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی۔اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں آئے روز اضافے سے عام آدمی، متوسط اور تنخواہ دار طبقے کیلئے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا محال ہوگیا ہے۔ مہنگائی کے خلاف آواز اٹھانا وقت کی ضرورت ہے۔ تاہم مہنگائی کے خلاف احتجاج کے نام پر امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنا، شاہراہیں، بازار، تجارتی مراکز اور ٹرانسپورٹ بند کرنا مناسب نہیں، ایک طرف مہنگائی نے لوگوں کی کمر دوہری کردی ہے اوپر سے روزگار بھی چھن جائے تو غریب لوگ کیا کریں۔ دوسالوں سے کورونا کی مہلک وباء سے ساری دنیا کی معیشت کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ ریاستوں کے درمیان تجارت ختم ہوگئی ہے۔ سٹاک مارکیٹس کریش کرگئی ہیں۔ زرعی اور صنعتی پیداوار میں کمی آئی ہے۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک نے کھپت کم ہونے سے پیداوار بھی گھٹا دی ہے جس کی وجہ سے تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اثر ضرورت کی ہر چیز کی قیمت پر پڑنا فطری امر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بھی تمام درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں دگنا اور تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ہمارے فلور اور شوگرملز مالکان نے بھی اپنی چھریاں تیز کر دیں‘ملک میں تیار ہونے والی مصنوعات کی قیمتوں میں بھی دو سے تین سو فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ ایسی صورتحال میں کوئی بھی سیاسی جماعت مہنگائی کو قابو کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اگر ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو مہنگائی کے ساتھ بدامنی میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ ملک کی سیاسی قیادت کو احتجاج‘ ہڑتال‘ دھرنوں‘ گھیراؤ جلاؤاور دھینگامشتی میں اپنا اور قوم کا وقت ضائع کرنے کے بجائے مل بیٹھ کر عوام کو درپیش مہنگائی اور دیگر مسائل کا حل ڈھونڈنا چاہئے۔اس سلسلے میں حکمران جماعت پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپوزیشن کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھائے اور قومی معاملات میں ان سے مشاورت کرے اس سے قومی مسائل کا حل ڈھونڈنے میں آسانی ہوگی ملک میں مفاہمت کی سیاست کو فروغ ملے گا اور سیاست دانوں کی عوام میں ساکھ بھی بحال ہوگی جو انہوں نے اپنے طرز عمل کی وجہ سے خود خراب کردی ہے۔ جادو کی چھڑی کسی بھی پارٹی اور لیڈر کے پاس نہیں ہے کہ وہ چھڑی گھمائے گا اور عوام کے مسائل خود بخود حل ہوں گے۔ نہ ہی عالمی سطح پر معیشت کی کساد بازاری اور قیمتوں میں عدم استحکام کا دوش کسی کو دیا جاسکتا ہے۔ قوم کے لیڈر ان کے مسائل کا حل نکالتے ہیں باہم دست و گریبان ہوکر عوام کو مزید مسائل کے دلدل میں نہیں گھسیٹتے۔ ہمارے سیاسی اکابرین کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔ آج عوام میں سیاسی شعور آچکا ہے۔ وہ کھرے اور کھوٹے کو بخوبی سمجھتے ہیں انہیں بے شعور، حالات و واقعات سے ناآشنا اور غلطیوں کو بھلانے والا نہیں گرداننا جا سکتا وہ بیلٹ کے ذریعے کسی کو منتخب اور کسی کو مسترد کرنے کی طاقت اب بھی رکھتے ہیں۔