کرکٹ کے ٹی ٹوئنٹی عالمی مقابلوں میں اگر کوئی ٹیم مطلوبہ ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے پندرہ اوورز ضائع کر چکی ہو یعنی 75 فیصد کھیل اُس کے ہاتھ سے نکل گیا ہو اور اُس کی جیت کے امکانات 10فیصد سے بھی کم بیان کئے جا رہے ہوں لیکن اگر وہ ٹیم کھیل میں واپسی کرے تو یہی کرکٹ کے کھیل کی وہ ”سنسنی خیزی“ کہلاتی ہے جس نے ایک دنیا کو اِس کی گرفت میں لے رکھا ہے اور ایک بار جسے کرکٹ کی لت پڑ جائے تو اُس کے لئے اِسے چھوڑنا آسان نہیں ہوتا۔ برطانیہ اور نیوزی لینڈ کا سیمی فائنل ایسا ہی ایک ناقابل فراموش مقابلہ ثابت ہوا جس میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کو ہدف کا پیچھا کرتے ہوئے ایک موقع پر 30 گیندوں پر 60 رنز درکار تھے اور گراؤنڈ میں موجود نیوزی لینڈ کو داد دینے والوں کی تعداد ہر بال کے ساتھ کم ہو رہی تھی بلکہ دیکھا گیا کہ نیوزی لینڈ کے سپورٹرز نے گراؤنڈ سے جانا شروع کر دیا تھا۔ عین اُنہی لمحات میں بلے بازوں کی جادوئی بیٹنگ شروع ہونے کی گھڑی آئی تو ایک بیٹسمین بھی آؤٹ ہو گیا جس سے رہی سہی اُمیدیں ٹوٹ گئیں لیکن اس نازک ترین مرحلے پر نیوزی لینڈ نے جو کر دکھایا‘ اسے جادو کہا جائے تو ہرگز غلط نہیں ہوگا۔ ممکن ہے برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے تماشائی کرکٹ کو جادو کی نظر سے نہ دیکھتے ہوں لیکن برِصغیر میں تو کرکٹ بدلہ لینے کا میدان ہوتا ہے۔ فلاں سے فلاں میچ اور فلاں ٹورنامنٹ کی شکست کا بدلہ لینے کی باتیں زبان زد عام ہوتی ہیں۔ اسی لئے کم از کم یہاں تو اس سیمی فائنل کو ورلڈ کپ دوہزاراُنیس کے فائنل کے تناظر ہی میں دیکھا گیا۔ زیادہ تر کرکٹ شائقین نیوزی لینڈ کے حق میں تھے کہ وہ برطانیہ سے اپنی سابق شکست کا ’بدلہ‘ لینا چاہتے تھے لیکن بہت سے شائقین کو غالباً یاد نہیں ہوگا کہ دوہزارسولہ میں ہونے والے آخری ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی پہلا سیمی فائنل برطانیہ اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں کے مابین کھیلا گیا تو جہاں برطانیہ نے نیوزی لینڈ کو ہرایا۔ اس لئے ایک طرح سے یہ مبینہ بدلہ دو طرفہ تھا‘ دوہزار سولہ کا اور دوہزاراُنیس کا یعنی ماضی کے سبھی مقابلوں میں شکست کا کرارا بدلہ! شائقین کرکٹ جانتے ہیں سوائے پاکستان کے ٹی ٹوئنٹی کے جاری مقابلوں میں شریک ہر ٹیم نے کم از کم ایک مرتبہ شکست کا مزا ضرور چکھا ہے۔ نیوزی لینڈ نے ٹورنامنٹ کا آغاز پاکستان کے ہاتھوں شکست سے کیا تھا جبکہ برطانیہ سیمی فائنل سے پہلے اپنا آخری مقابلہ جنوبی افریقہ سے ہارا تھا۔ اس لئے امید تھی کہ مزید مقابلے بہت کانٹے کا ہوگا لیکن اتنے اہم میچ کے لحاظ سے وکٹ اور حالات ذرا کٹھن تھے۔ برطانیہ نے ابتدائی دس اوورز میں صرف 67رنز بنائے بلکہ پندرہ اوورز میں بھی سکور بورڈ پر صرف 110رنز ہی تھے۔ آخری پانچ اوورز کی محنت سے ہی وہ اپنے سکور کو 166تک پہنچا پایا پھر نیوزی لینڈ کی داستان بھی زیادہ مختلف نہیں تھی بلکہ وہ تو ابتدائی تین اوورز میں ہی تجربہ کار ترین بلے بازوں مارٹن گپٹل اور کین ولیمسن سے محروم ہوگیا تھا۔ آدھی اننگ مکمل ہونے پر یعنی 10اوورز میں اس کے صرف اٹھاون رنز تھے اور معاملہ پندرہ اوورز میں 107 اور آخری پانچ اوورز میں 68رنز درکار تک پہنچ گیا۔ یہاں جب کسی کو توقع نہیں تھی تب نیوزی لینڈ کے بلے بازوں نے امید کا دامن نہ چھوڑا اور اپنے زورِ بازو سے ایک یادگار کامیابی حاصل کی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اماراتی سرزمین پر جاری ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کا آغاز فاتحانہ نہیں تھا۔ وہ پاکستان کے ہاتھوں شکست سے دوچار تو ہوا لیکن اس مقابلے میں ہی اس کی ایک خفیہ طاقت آشکار ہوگئی تھی یعنی فیلڈنگ! اگلے مقابلوں کی فتوحات میں جہاں نیوزی لینڈ کی شاندار باؤلنگ اور جاندار بلے بازی کا کردار تھا‘ وہیں پورا پورا حصہ فیلڈنگ نے بھی ڈالا۔ پاکستان کے خلاف میچ میں حفیظ کے لگائے گئے شاٹ پر ڈیون کونوے کے ناقابلِ یقین کیچ سے لے کر سیمی فائنل میں جونی بیئرسٹو کی قیمتی وکٹ لینے کیلئے ولیمسن کی کوشش تک‘ فیلڈنگ نیوزی لینڈ کا طرہئ امتیاز نظر آیا ہے۔ گوکہ سیمی فائنل میں ان سے چند غلطیاں ہوئیں مثلاً وکٹوں کے پیچھے ڈیوڈ ملان کا کیچ اس وقت چھوٹ گیا جب وہ صرف دس رنز پر کھیل رہے تھے‘ اس کے علاؤہ کیچ پکڑنے کی چند ایسی کوششیں بھی ناکام ہوئیں جو نیوزی لینڈ کے معیار سے کیچ ہونی چاہئے تھیں لیکن بحیثیت ِمجموعی پورے ٹورنامنٹ میں اگر کسی چیز نے نیوزی لینڈ کو اپنے حریفوں سے ممتاز رکھا ہے تو وہ ان کی فیلڈنگ ہے اور ان خامیوں اور کوتاہیوں کو پورا کرنے میں مدد دی ہے جو اس کی بیٹنگ اور باؤلنگ لائن میں موجود ہیں۔سال دوہزارسات سے اب تک کل سات مرتبہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ مقابلے ہوئے ہیں۔ نیوزی لینڈ پہلے ورلڈ کپ میں سیمی فائنل تک پہنچا تھا اور اس کے بعد دوہزارسولہ میں۔ دوہزارنو‘ دوہزاردس‘ دوہزاربارہ اور دوہزارچودہ سب میں نیوزی لینڈ کی کہانی دوسرے مرحلے ہی میں مکمل ہوئی اور وہ مقابلوں سے خارج ہو گیا لیکن اِس مرتبہ وہ فائنل میں پہنچ چکا ہے۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم دوہزارسات کے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں پاکستان سے ہاری تھی جبکہ دوہزارسولہ میں اسے برطانیہ نے شکست دی تھی۔ اس مرتبہ وہ تاریخ بدلنے میں کامیاب ہوگیا ہے اور پہلی بار کسی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل تک پہنچا ہے۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم کبھی بھی فیورٹ نہیں رہی بلکہ یہ ’چھپا رستم‘ ہے اور فائنل کھیلنے والی کسی بھی ٹیم کیلئے پریشانی بن سکتی ہے۔