پھر شہر ’کم نگہ‘ کی بصارت پہ رائے دو

مشکل در مشکل اور انتخابات در انتخابات مراحل (مقامات ِتفکر) زیادہ فرق نہیں اور یہی حاصل ِکلام ہے کہ اِس عمل سے وابستہ اُمیدیں پوری نہیں ہو رہیں لیکن بار بار ایک ہی تجربہ دہرانے سے توقع ہے کہ نتیجہ الگ برآمد ہوگا! خبر ہے کہ خیبرپختونخوا میں مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اور خیبرپختونخوا کے 17 اضلاع (پشاور‘ نوشہرہ‘ چارسدہ‘ خیبر‘ مہمند‘ مردان‘ صوابی‘ کوہاٹ‘ کرک‘ ہنگو‘ بنوں‘ لکی‘ ٹانک‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ہری پور‘ باجوڑ اور بونیر) کیلئے مقرر کردہ ریٹرنگ آفیسرز نے وصول شدہ کاغذات الیکشن کمیشن کو ارسال کر دیئے ہیں۔ یہ کاغذات مجموعی طور پر 66 تحصلیوں کیلئے ہیں جن میں سب سے زیادہ تحصیلیں پشاور میں سات‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ بونیر اور بنوں میں چھ چھ۔ مردان میں پانچ‘ صوابی‘ کوہاٹ اور لکی میں چار چار۔ نوشہرہ‘ چارسدہ‘خیبر‘ مہمند‘ کرک اور ہری پور میں تین تین جبکہ ہنگو اور بونیر میں دو دو تحصیلیں ہیں۔ سب سے زیادہ کاغذات نامزدگی بھی پشاور ہی میں جمع ہوئے ہیں جن میں جنرل نشست کیلئے تین ہزار چار‘ خواتین کی نشستوں کیلئے پانچ سو چھپن‘ مزدور کسان نشستوں کیلئے ایک ہزار بیاسی‘ نوجوان (یوتھ) نشستوں کیلئے نو سو چودہ اور اقلیتی نشستوں کیلئے ایک سو اڑتالیس اُمیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ اِس قدر بڑی تعداد میں کاغذات نامزدگی جمع ہونے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پشاور اور صوبے کے دیگر اضلاع میں انتخابی گہما گہمی کس قدر برپا ہونے والی ہے اور کس قدر کانٹے دار (پرہجوم) مقابلے متوقع ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ الیکشن کمیشن نے خیبرپختونخوا میں ’16 جنوری دوہزاربائیس‘ تک بلدیاتی انتخابات اور بلدیاتی کا عمل مکمل کرنا ہے اور اِس سلسلے میں سترہ مذکورہ اضلاع میں پہلے مرحلے کی پولنگ کیلئے ’اُنیس دسمبر دوہزاراکیس‘ کی تاریخ مقرر ہے۔ اِن بلدیاتی انتخابات کو مؤخر (فی الوقت ملتوی) کرنے کی استدعا کرتے ہوئے خیبرپختونخوا نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا کہ ایک ہی دن تحصیل‘ سٹی کونسل‘ ویلیج کونسل اور نیبرہڈ کونسلوں کیلئے بلدیاتی انتخابات نہ کرائے جائیں تاہم الیکشن کمیشن نے اِس رائے سے اتفاق نہیں کیا اور چار سے آٹھ نومبر کاغذات نامزدگی جمع کروانے کیلئے تاخیر مقرر کی گئی۔ دس نومبر سے بارہ نومبر کاغذات کی جانچ پڑتال (سکورٹنی) کا عمل مکمل کیا جائے گا جس کے بعد کاغذات نامزدگیوں کی منظوری یا اُنہیں مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف تیرہ سے سولہ نومبر اعتراضات سنے جائیں گے۔ اِس سلسلے میں حتمی فیصلے کی تاریخ اُنیس نومبر مقرر ہے جس کے بعد اُمیدواروں کی حتمی فہرست جاری کر دی جائے گی جس کے بعد بائیس نومبر تک اُمیدواروں کے کاغذت نامزدگی واپس لینے کی آخری تاریخ ہے۔ اِس کے بعد تیئس نومبر کو انتخابی نشانات جاری کئے جائیں گے اور اُسی دن اُمیدواروں کے نام بمعہ انتخابی نشانات کی حتمی فہرست جاری ہو جائے گی اور یوں یہ پورا انتخابی عمل چوبیس دسمبر تک مکمل ہو جائے گا۔ بلدیاتی انتخابات کیلئے ضابطہئ اخلاق بھی وضع کیا گیا ہے جو ماضی سے زیادہ مختلف نہیں۔بلدیاتی انتخابات ایک مرتبہ پھر سیاسی بنیادوں پر ہوں گے لیکن حسب ِسابق کاغذات جمع کرانے والوں میں اکثریت غیرسیاسی اُمیدواروں کی ہے اور اصولاً دیکھا جائے تو بلدیاتی انتخابات غیرسیاسی ہی ہونے چاہیئں۔ کامیاب بلدیاتی نمائندوں کو جس سطح اور جس درجہ فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ لینا ہوتا ہے اُس میں سیاسی ترجیحات اور سیاسی مفادات عوامی مفادات سے متصادم رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ خدمت کا حق ادا نہیں ہو پاتا۔ ماضی کے کئی تجربات اور مثالیں موجود ہیں جس میں بلدیاتی نظام پر سیاسی جماعتوں کا غلبہ ہونے کی وجہ سے باشعور طبقات نے تحفظات کا اظہار کیا اور اِس سلسلے میں شکایات درج کروائیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک انتخابات سے دوسرے انتخابات تک تیاریوں میں مصروف رہتی ہیں اور اُن کے پاس انتخابات میں کامیاب ہونے کیلئے درکار وسائل اور تجربہ بھی ہوتا ہے جس کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ایک عام آدمی اگر آزاد حیثیت سے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیتا ہے تو اُس بیچارے کے الیکشن کمیشن دفاتر کے چکر لگانے ہی میں سارا وقت گزر جاتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہوتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے پاس اپنے نامزد اُمیدوار کی تشہیر کیلئے مالی وسائل کسی آزاد اُمیدوار کے مقابلے نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں اور اُن کے انتخابی نشانات بھی لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہوتے ہیں‘ جن کی بدولت وہ نفسیاتی طور پر برتری رکھتے ہیں۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کیلئے ضابطہئ اخلاق وضع کرتے ہوئے سوشل میڈیا سے متعلق ضابطہئ اخلاق جاری نہیں کیا گیا حالانکہ یہ نہایت ہی ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں کے پاس نہایت ہی منظم ”سوشل میڈیا سیل“ پہلے سے موجود ہیں جن کا اِس موقع پر بھرپور استعمال کیا جائے گا جبکہ ایک عام بلدیاتی اُمیدوار اگر دوڑ دھوپ کر کے ووٹروں کی فہرستیں حاصل کر بھی لے تو اُس میں موبائل فون نمبر نہیں ہوتے جن کا وہ استعمال کر سکے لیکن سیاسی جماعتیں سالہا سال کے تجربات کی بنیاد پر ایسے کوائف اپنے طور پر جمع رکھتی ہیں‘ جن سے ووٹروں کی رائے پر اثرانداز ہوا جا سکے اور سیاسی جماعتیں زیادہ منظم انداز میں انتخابی مہمات مرتب و فعال رکھنے کا ہنر (خواندگی) بھی رکھتی ہیں۔ چوتھی بات سیاسی جماعتیں  مقابلے کرنے کی الگ سے حکمت عملیاں وضع کرتی ہیں اور ووٹوں کی گنتی اور تقسیم کے لائحہ عمل کے مطابق اپنے ہی خلاف ایسے اُمیدواروں کو بطور بلدیاتی اُمیدوار لایا جاتا ہے جو مخالف اُمیدوار کے ووٹ تقسیم کر کے کم کر سکے۔ یہ نہایت ہی سوچی سمجھی اور نپی تلی حکمت عملی ہوتی ہے جس کے پیچھے بہت ساری عوامل سوچ بچار یا ہوم ورک کارفرما ہوتا ہے اور یوں سارے کا سارا بلدیاتی انتخابی عمل سیاسی جماعتوں کے نام رہتا ہے‘ جو آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والوں کی حمایت بھی واجبی یا وقتی مراعات یا وعدوں کے عوض حاصل کر لیتی ہیں۔ ماضی میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں‘ جن میں آزاد اُمیدواروں کو گلے شکوے رہے۔ اِس بات کا تصور کرنا زیادہ مشکل نہیں کہ الیکشن کمیشن کا ضابطہئ اخلاق پولنگ کا عمل مکمل ہونے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے جس کے بعد آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والوں سے بلواسطہ اور بلاواسطہ صوبائی فیصلہ سازوں کی ملاقاتوں کا اہتمام کروایا جاتا ہے جو اُن سے ترقیاتی فنڈز اور دیگر مراعات کے وعدے کرتے ہیں اور یوں پانسہ اُن کے حق میں پلٹ جاتا ہے جن کا منشور انتخابات میں عوام کی اکثریت مسترد کر چکی ہوتی ہے۔ عام آدمی کے لئے اِس قسم کا انتخابی بندوبست اور انتخابی اتحادی حکمت عملیاں ناقابل سمجھ ہیں کہ جن سیاسی مخالفین کو وہ مسترد کرتے ہیں لیکن اُن کی جماعت اُنہی کی اتحادی بن کر عددی اکثریت کی بنیاد پر ضلعی یا تحصیل میں حکومت بنا لیتی ہے۔ بہرحال انتخابی نظام کے یہ پہلو الگ موضوع ہیں۔موجودہ حالات میں مہنگائی کے سبب پیدا ہوئی معاشی مشکلات بلدیاتی انتخابی مہمات کا خاص نکتہ رہے گا‘ جو حزب اختلاف اور آزاد حیثیت سے اِن انتخابات میں حصہ لینے والے حکومتی جماعت کے نامزد اُمیدواروں کے خلاف عوام کی عدالت میں زور و شور سے پیش کریں گے اور چونکہ یہ مؤقف زیادہ فلسفیانہ نہیں‘ اِس لئے ووٹروں کو قائل کرنا بھی مشکل نہیں ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کی منصوبہ بندی کون زیادہ بہتر انداز میں کرتا ہے جبکہ امکان یہی ہے کہ اِس مرتبہ بھی انتخابی منصوبہ بندی ہی کامیاب (سرخرو) ٹھہرے گی۔ ”اِس کی نظر میں پنہاں محبت پہ رائے دو …… پھر شہر کم نگہ کی بصارت پہ رائے دو (زریں منور)۔“