طالبان سے ٹرائیکاپلس کے مطالبات

اسلام آباد میں پاکستان،چین،روس اور امریکہ کے ٹرائیکا پلس اجلاس میں اعتدال پسندانہ پالیسیوں کے نفاذ کی حوصلہ افزائی کیلئے طالبان کے ساتھ عملی روابط جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ٹرائیکا پلس اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں خواتین اور لڑکیوں کیلئے ہر سطح پر تعلیم تک رسائی پر زور دیا گیا ہے۔اجلاس کے شرکاء نے طالبان پر زور دیا کہ وہ دیگر افغان جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک جامع اور نمائندہ حکومت کی تشکیل کے لیے اقدامات کریں جو تمام افغانوں کے حقوق کا احترام کرے اور افغان معاشرے کے تمام پہلووں میں خواتین اور لڑکیوں کی شرکت کے لیے مساوی حقوق فراہم کرے۔اجلاس میں ایک ایسے افغانستان کی خواہش کا اظہار کیا گیا جو دہشت گردی اور منشیات سے متعلق جرائم سے پاک ہے اور جو علاقائی استحکام اور رابطے میں معاون ہو۔اجلاس میں اس توقع کا اعادہ کیاگیا کہ طالبان افغان سرزمین اپنے پڑوسی اور دیگر ممالک کے خلاف استعمال کو روکنے کے اپنے عزم کو پورا کریں گے۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنائیں گے۔ اجلاس میں طالبان سے مطالبہ کیاگیا کہ وہ تمام بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں سے تعلقات منقطع کریں، اور ملک کے اندر سرگرم کسی بھی دہشت گرد تنظیم کو جگہ دینے سے انکار کریں۔پندرہ اگست کو جب سے طالبان نے افغانستان میں عنان اقتدار سنبھالا ہے۔عالمی برادری کی طرف سے تسلسل کے ساتھ طالبان سے اپنے وعدے نبھانے اور انسانی حقوق کی پاسداری کے مطالبات کئے جارہے ہیں۔ دوسری جانب طالبان کا موقف ہے کہ وہ دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کے پابند ہیں عالمی برادری ان کی حکومت تسلیم کرے۔ طالبان نے اپنے تین ماہ کے دور حکومت میں خواتین کو تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے، مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل کے حوالے سے کوئی واضح پیش رفت نہیں کی اس وجہ سے عالمی برادری کی تشویش قابل فہم ہے۔ فی الوقت افغانستان میں حالات انتہائی ناگفتہ بہہ ہیں۔ خزانے میں جوکچھ تھا وہ اشرف غنی اور ان کے وزراء لوٹ کر لے گئے۔طالبان کے پاس سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے بھی پیسے نہیں ہیں۔اب کام کے بدلے تنخواہ کے بجائے خوراک کا پروگرام شروع کیاگیا ہے۔ بیرون ملک بینکوں نے افغانستان کے تمام اثاثے منجمد کردیئے ہیں اور ترقیاتی منصوبوں کیلئے غیر ملکی امداد بھی بند کردی گئی ہے۔ اس صورتحال میں افغانستان میں بڑے پیمانے پر انسانی ہلاکتوں اور وہاں سے لاکھوں افراد کی ہجرت کے خدشات موجودہیں‘پاکستان بار بار عالمی برادری سے انسانی بنیادوں پر افغانستان کی امداد بحال کرنے کی اپیل کرتا رہا ہے اور اپنی سرحدیں کھول کر اشیائے ضروریہ کی ترسیل کی اجازت دیدی ہے۔امریکہ اور اس کے اتحادی وہی سنگین غلطی پھر دہرا رہے ہیں جس کا ارتکاب انہوں نے 1979میں افغانستان سے سوویت یونین کے فوجی انخلاء کے بعد افغانیوں کو بے آسرا اور بے یارومدد گار چھوڑ کر کیاتھا۔جس کی وجہ سے پورا ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیاتھا۔افغانستان کی موجودہ مخدوش صورتحال کی سو فیصد ذمہ داری امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں پر عائد ہوتی ہے جو بیس سال تک افغانستان میں رہے افغانستان کی تعمیرنواور معاشی بحالی کے نام پر اربوں ڈالر لوٹ لئے گئے افغان عوام کی حالت چالیس سال پہلے جیسی ہے۔ اگر افغانستان میں قحط پڑگیا تو لوگ جانیں بچانے کے لئے قریب ترین ملک پاکستان، ایران اور تاجکستان جائینگے‘کوئی افغان مہاجر امریکہ، کینیڈا، جرمنی، فرانس، نیدر لینڈ اور برطانیہ نہیں جاسکے گا۔ اگرچہ پاکستان نے مزید افغان مہاجرین کی میزبانی سے معذرت کا اظہار کیا ہے لیکن جب انسانی المیہ رونما ہوگا تو پڑوسی ہونے کے ناطے اور اسلامی اخوت کے تحت پاکستان کو تعاون کا ہاتھ بڑھانا ہی پڑے گا۔ ٹرائیکا پلس کے ممبر ملکوں کو اقوام متحدہ، امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ فی الوقت طالبان سے ڈو مور کا تقاضا کرنے کے بجائے انسانی المیے کو روکنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔اور برفباری شروع ہونے سے قبل وہاں اشیائے خوردونوش سمیت امدادی سامان پہنچایاجائے۔