پشاور کہانی:سنگین رویئے

گردوپیش میں موجود اِس المناک طرز معاشرت پر نگاہ ڈالئے کہ جس کے تحت قبرستانوں میں تجاوزات اور قبرستانوں کی اراضی قبضہ کرنے کا رجحان اس حوالے سیبے حسی کا اظہار  ہے۔  پشاور میں قبرستانوں سے متعلق ”انتہائی“ اور ”سنگین روئیوں“ کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جن قبروں کا نام و نشان مٹا دیا جاتا ہے وہعام لوگوں کی ہے اور اِن عام لوگوں کی فریاد و شکایات سننے والا کوئی نہیں۔ جن خاندانوں کے عزیزواقارب کی قبریں وقف قبرستانوں سے مسمار (غائب) کی گئی ہیں اُن کے دلوں پر کیا گزرتی ہے یہ صرف وہی جانتے ہیں لیکن اگر کوئی پوچھے اور محسوس کرنے کی زحمت گوارہ کرے۔تاریخ ِپشاور اور تذکرہئ پشاور میں ’فصیل ِشہر‘ کے باہر ایسے درجنوں قبرستانوں کا ذکر ملتا ہے جن کا آج وجود بھی نہیں رہا اور یہی منظرنامہ بیڑی باغ سے لیکر ہزارخوانی (رحمان بابا) قبرستان تک پھیلا نظر آتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قبرستانوں تجاوزات سے متعلق توجہ دلانے اور بروقت مطلع کرنے کے باوجود بھی ضلعی انتظامیہ اور بلدیاتی اداروں کے اہلکار ”فوری طور پر“ حرکت میں نہیں آتے دوسری اہم بات یہ ہے کہ ”تجاوزات کے شہر (پشاور)“ میں قوانین و قواعد شکنیوں کا ایک محرک اور وجہ یہ بھی ہے کہ گھوڑے اور گھاس نے دوستی کر رکھی ہے۔ یادش بخیر 24 مئی 2021ء وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے اچانک ڈپٹی کمشنر دفتر کا دورہ کیا اور وہاں کی لائسنس برانچ میں رشوت لینے والے 2 اہلکاروں کو رنگے ہاتھوں پکڑا۔ اِس کاروائی کی تفصیلات خاصی دلچسپ تھیں کہ وزیراعلیٰ نے بھیس بدل کر دورہ کیا اُور اُن کے دورے کی خفیہ کیمرے سے فلمبندی کی گئی جسے بعدازاں تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے جاری کرتے ہوئے دن دیہاڑے لی جانے والی رشوت کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ قبل ازیں اگر ذرائع ابلاغ کی وساطت سے عوامی شکایت پیش کی جاتی تو وزیراعلیٰ‘ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اِس بات کو تسلیم نہ کرتے کہ ایسے سرکاری دفاتر کہ جہاں ملازمین کی ماہانہ تنخواہیں‘ مراعات اور سہولیات دیگر محکموں سے زیادہ ہیں‘ اُن کے اہلکار رشوت ستانی میں ملوث ہیں لیکن جب وزیراعلیٰ نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تو شاید اُنہیں بھی ایک لمحے کیلئے یقین نہیں آیا ہوگا کہ کس طرح بدعنوانی سرکاری محکموں کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے۔ امید ہے کہ وزیراعلیٰ اسی طرح ہر ہفتے دس دن میں کسی نہ کسی سرکاری محکمے اور بالخصوص پشاور کے ٹاؤنز اور ضلعی حکومت کے دفاتر کا اچانک دورہ کریں گے اور وہاں جاری مبینہ بدعنوانیوں کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ کس طرح تجاوزات قائم کرنے کے غیرتحریری اجازت نامے فروخت ہوتے ہیں اور کس طرح پشاور کو پشاور کے وسائل پر پلنے والے ملازمین دیمک کی طرح کھا رہے ہیں!  تحریک انصاف نے بدعنوانی سے پاک اور انصاف پر مبنی معاشرے کی بنیاد رکھنے کا وعدہ کیا تھا جس کی تکمیل کیلئے باقی ماندہ آئینی مدت ’عرصہ 20 ماہ‘ میں کوششوں کو زیادہ تیز کرنے کی ضرورت ہے۔