پاکستان میں بہت ہی کم ”نجی تعلیمی“ اِدارے ایسے ہیں جہاں تعلیم میں پنہاں ”قومی خدمت“ جیسے مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے ’درس و تدریس‘ میں بہتری کے کم سے کم معیار کو حاصل کرنے کا بیانیہ (عہد) بھی ملتا ہے اور روایتی تدریسی عمل کے ساتھ طلاب کو تحصیل ِعلم کے ساتھ نظم و ضبط سے روشناس کرایا جاتا ہے تاکہ وہ کسی بھی شعبہئ ہائے زندگی میں اپنے قومی ترانے میں دیئے گئے اِس تصور کی منہ بولتی تصویر کے طور پر ”قوت ِاخوت ِعوام“ کا مظاہرہ کریں۔ ایسے ہی ’نیک نام‘ اور ’معروف‘ اداروں میں ایبٹ آباد کا ’آرمی برن ہال‘ بھی شامل ہے‘ جس کا قیام 1943ء (78 برس قبل) وجود میں آیا تھا اور اُن کا بنیادی مقصد ’تعلیم بصورت خدمت‘ تھی۔ برن (Burn) اسکاٹش اور انگریزی زبان کا لفظ ہے‘ جس کا مطلب کسی دریا کی چھوٹی شاخ جبکہ ہال Hall کا مطلب کسی وسیع و پرسکون احاطے میں بنے گھر کے ہیں۔ یوں برن ہال سے مراد ’فیض کا چشمہ‘ ہے جس کا مقصد و نصب العین بھی اِسی سوچ کا مظہر ہے اور یہی انسان کو ’اشرف المخلوقات‘ کے مقصد سے قریب کرتا ہے جہاں اِنسان امتیازات و تعصبات سے بالاتر ہو کر انسانیت کو بلندیوں سے روشناس کرانے میں خدا کا فضل مقصود رہے۔ قیام پاکستان کے بعد برن ہال کے بانی جو پہلے ”سینٹ جوزف مشنری سوسائٹی مل ہل“ کے نام تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھ چکے تھے اُنہوں نے ادارے کا نام ’سینئر کیمبرج سکول‘ اور بعدازاں ’برن ہال‘ رکھا لیکن چونکہ پاکستان آنے کے بعد اُنہوں نے حکومت سے زمین اجارے (لیز) پر حاصل کی تھی جس کا اجارہ ختم ہونے کے بعد 1977ء میں ’برن ہال‘ کا تعلیمی بندوبست اور جملہ وسائل (ترقی یافتہ شکل میں) ایجوکیشن کور کے تحت ’آرمی برن ہال‘ کا حصہ (اثاثہ) بن گئے اور یوں برن ہال کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا‘ جو کامیاب کاروباری حکمت ِعملی کے ساتھ جاری ہے اور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوب ایشیا میں تعلیمی اداروں میں ’برن ہال‘ کا نام معروف ہے۔ حکومت ِپاکستان نے ’آرمی برن ہال‘ کی خدمات کے اعتراف میں یادگاری ٹکٹ بھی جاری کر رکھا ہے۔ ’مارچ 2018ء‘ میں جاری ہونے والے اِس ڈاک ٹکٹ پر برن ہال کالجر برائے طلبہ شاخ کی عمارت اور ادارے کا نصب العین (Moto) شائع کیا گیا جس پر لاطینی زبان کا جملہ ’Quo non ascendam‘ درج ہے جس کا مطلب ہے کہ ”وہ کونسی بلندی ہے جسے حاصل نہیں کیا جا سکتا؟“ یقینا جب انسان پرعزم ہو جائے اور اُسے رہنما و رہنمائی میسر آئیں تو وہ کونسی بلندی ہے جسے یہ حاصل نہیں کر سکتا! بقول علامہ اقبالؒ ”زد بانگ کہ شاہینم و کارم بہ زمیں چیست …… صحرا است کہ دریاست تہ بال و پر ماست (ترجمہ: شاہین نے بلندی سے آواز دی کہ میرا زمیں پر کیا کام …… صحرا ہو یا دریا میں سب سے بلند ہوں۔) ایبٹ آباد میں خیبرپختونخوا کا تعلیمی امتحانی بورڈ موجود ہے لیکن برن ہال کا الحاق وفاقی امتحانی بورڈ سے ہے‘ جسے ایبٹ آباد اور خیبرپختونخوا کے تعلیمی بندوبست کا پابند کرنے کیلئے صوبائی فیصلہ سازوں کو ’ایجوکیشن کور‘ سے بات کرنی چاہئے کیونکہ طلاب کی اکثریت کو وفاقی بورڈ سے اسناد کی تصدیق‘ حصول اور ثانوی امتحانات یا دیگر معاملات میں رجوع کرنے کے لئے پریشانی کا سامنا رہتا ہے۔برن ہال حال کے زیراہتمام حال ہی محدود سطح پر چینی زبان کی کلاسز شروع کی گئیں فیصلہ ساز متوجہ ہوں کہ دنیا کے ’گلوبل ویلیج‘ بننے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں خارجی زبانوں کی اہمیت روایتی اسلوب سے بڑھ گئی ہے اور اِس سلسلے میں مغربی یا افریقیائی ترقی یافتہ ممالک کے تصورات ِتعلیم کو دیکھنا چاہئے۔