وزارت پیٹرولیم اور سوئی ناردرن گیس کمپنی نے موسم سرما میں گھریلو صارفین کو قسطوں میں گیس کی فراہمی کے حوالے سے حکمت عملی تیار کر لی ہے۔ وزارت پیٹرولیم اور گیس کمپنیوں نے نیا گیس شیڈول تشکیل دے دیا ہے جس کے تحت خیبر پختونخوا اور پنجاب میں صرف کھانا پکانے کیلئے گیس ملے گی اوردیگر اوقات میں گیس بند اور چولہے ٹھنڈے رہیں گے۔ سوئی ناردرن کے مطابق گھریلو صارفین کو 24 گھنٹوں کے دوران مختلف اوقات میں ساڑھے گیارہ گھنٹے گیس ملے گی جبکہ ساڑھے بارہ گھنٹے گیس بند رہے گی۔ شیڈول کے مطابق گھریلوصارفین کو صبح ساڑھے پانچ بجے سے ساڑھے آٹھ بجے تک گیس ملے گی، دن کو ساڑھے گیارہ بجے سے دوپہر دوبجے تک اور شام کو چار بجے سے رات دس بجے تک گیس میسر ہوگی۔گھریلو صارفین کیلئے گیس کی فراہمی کایہ شیڈول دسمبر سے فروری تک نافذ رہے گا۔ہمارے ملک میں ہرکام منفرد اور انوکھا ہوتا ہے۔گرمیوں کے موسم میں اے سی اور پنکھوں کی ضرورت جب ہوتی ہے تو بجلی نہیں ہوتی۔حالانکہ گرمیوں کے موسم میں ڈیموں میں پانی کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے مگر ہماری پاور ڈسکوز ہائیڈرو پاور سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کے بجائے تیل سے بجلی پیدا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اب تو یہ ہر مہینے کا معمول بن گیا ہے کہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے جس کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ پانی، کوئلے،ہوا اور شمسی توانائی سے پیدا ہونے والی بجلی طلب کے مقابلے میں کم تھی اس لئے تیل سے اضافی بجلی پیدا کی گئی جس سے چار ساڑھے چار ارب کے اضافی اخراجات آئے۔ یہ خسارہ پورا کرنے کیلئے صارفین پر بارہ سے چودہ ارب کا اضافی بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ہمارے حکمران اور پالیسی ساز بھی ان سے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ چار ارب کا خسارہ بھرنے کے لئے چودہ ارب روپے کا صارفین پر اضافی بوجھ کس خوشی میں ڈالا گیا۔جب ہمارے ہاں سردی کا موسم آتا ہے اور درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے گر جاتا ہے تو گیس کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوتی ہے۔ شہر کے مضافاتی علاقوں میں گیس پریشر کم ہونے کی شکایات عام ہیں تاہم ملکی تاریخ میں پہلی بار گیس کی بندش کے بجائے گیس فراہمی کا شیڈول جاری کیاگیا ہے۔ملک میں گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں بیرون ملک سے بھی اربوں ڈالر کی گیس درآمد کی جاتی ہے۔ قیمتوں میں ہوشرباء اضافے کے باوجود گیس کی عدم دستیابی لمحہ فکریہ ہے۔ جن علاقوں میں گیس پریشر کم یا گیس دستیاب نہیں وہاں کے لوگ گیس سلینڈر خرید کر اپنے گھروں کا چولہاگرم رکھتے ہیں گذشتہ تین سالوں میں ایل پی جی کی قیمتوں میں بھی سوفیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ بارہ کلو والا گھریلو سیلنڈر ساڑھے گیارہ سو روپے میں ملتا ہے اب اس کی قیمت دو ہزار چھ سو روپے ہوگئی ہے۔ اس عرصے میں سوئی ناردرن کی طرف سے فراہم کی جانے والی گیس کی قیمت بھی دوگنی ہوگئی ہے۔ بجلی کی قیمت بھی آٹھ روپے سے سولہ روپے یونٹ ہوگئی ہے۔ تیل کی قیمت 86روپے لیٹر سے 145روپے ہوگئی ہے۔ قیمتوں میں ماہ بہ ماہ اضافے سے متوسط اور غریب طبقہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ بجلی، تیل اور گیس مہنگی ہونے سے ہر چیز کی قیمت بڑھتی ہے جبکہ تنخواہ دار لوگوں کی تنخواہوں میں سالانہ پانچ سو یا ہزار روپے کا اضافہ ہوتا ہے۔ غریب آدمی کے پاس جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کا یہی واحد راستہ رہ گیا ہے کہ بچوں کو سکول سے اٹھا کر مزدوری پر لگادے۔تین وقت کا کھانا کم کرکے دو وقت یا ایک وقت کھانے پر اکتفا کرے۔ حکومت نے احساس پروگرام کے ذریعے کم آمدنی والے لوگوں کو رعایتی نرخوں پر اشیائے خوردونوش فراہم کرنے کا پروگرام بنایاہے۔ بائیس کروڑ کی آبادی میں سے تین چار کروڑ ہی اس پروگرام سے استفادہ کرسکتے ہیں باقی اٹھارہ کروڑ کی آبادی کا کیابنے گا۔ ان میں سے بھی اگر ایک کروڑ کھاتے پیتے اور متمول لوگوں کو نکال دیں پھر بھی سترہ کروڑ آبادی بے یارومددگار رہے گی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی ڈیمانڈ پر گیس، بجلی، تیل اور کرایوں پر سبسڈی ختم کردی ہے۔ کیااب کھانے پینے کی چیزوں پر سبسڈی دے سکے گی؟