طالبان بدل گئے ہیں؟

افغانستان کے عبوری وزیرخارجہ امیر خان متقی کا کہنا ہے کہ طالبان اب پہلے جیسے نہیں ہیں وہ حالات کے مطابق تبدیل ہوچکے ہیں۔افغان خواتین کومختلف شعبوں میں نمائندگی دی جارہی ہے۔صحت کے شعبے میں خواتین کی شمولیت سو فیصد ہے،وہ تعلیم کے شعبے سے بھی منسلک ہیں۔پورے ملک میں لڑکوں کے سارے سکول کھولے ہیں اور لڑکیوں کے سکول چھٹی جماعت تک تمام صوبوں میں کھلے ہیں۔تعلیم کا سلسلہ صفر سے شروع کیا اور اب تک 75 فیصد تعلیمی ادارے کھول دیے ہیں، حکومتی اداروں میں کام کرنے والی خواتین میں سے کسی کو بھی ملازمت سے فارغ نہیں کیا گیا۔وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بناناچاہتے ہیں امیر متقی نے دعویٰ کیا کہ طالبان حکومت میں تمام علاقوں کو نمائندگی دی گئی ہے۔ طالبان کابینہ میں پنج شیر کا وزیربھی ہے، بدخشاں، فاریاب، قندھار، ننگرہار اور کابل کے لوگ بھی کابینہ میں شامل ہیں۔عالمی برادری طالبان حکومت سے یہی مطالبہ کررہی ہے کہ دوحہ معاہدے میں انہوں نے جو وعدے کئے تھے انہیں عملی جامہ پہنائیں جن میں انسانی حقوق کا تحفظ، خواتین کو تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرنا، مذہبی اقلیتوں کو حقوق فراہم کرنا اور وسیع البنیاد حکومت کا قیام شامل ہیں۔ جب تک یہ تمام مطالبات پورے نہیں کئے جاتے۔طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیاجائے گا اور جب تک حکومت کو تسلیم نہیں کیاجائے گا۔ افغانستان کو بیرونی امداد ملے گی۔ نہ اس کے ساتھ کوئی ملک تجارت پر راضی ہوگا۔ نہ ہی وہاں کوئی سرمایہ کاری کے لئے تیار ہوگا۔ خود افغانستان کے مختلف بین الاقوامی بینکوں اور مالیاتی اداروں میں پڑے اربوں ڈالر بھی منجمد رہیں گے۔ دنیا ایک گلوبل ویلج ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، نیدر لینڈ اور جاپان جیسے صنعتی ترقی یافتہ ممالک بھی دیگر اقوام کے ساتھ تجارت، اشتراک کار، سرمایہ کاری اور مختلف شعبوں میں تعاون کے بغیر اپنی سلامتی کا تحفظ نہیں کرسکتے۔ افغانستان جیسا لینڈ لاک، پسماندہ اور غریب ملک تنہا اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اس لئے طالبان کو مسلمہ بین الاقوامی قوانین کا احترام اور اقوام عالم کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے لئے آگے بڑھنا ہوگا۔طالبان کا یہ موقف دیگر ممالک کے لئے ناقابل قبول ہے کہ انہوں نے مختلف صوبوں کو کابینہ میں نمائندگی دی ہے۔ اگرچہ کابینہ میں شامل افراد کا تعلق مختلف صوبوں سے ہے مگر وہ سب طالبان ہی ہیں۔افغانستان میں دو درجن سے زیادہ نسلی و لسانی قبیلے بستے ہیں جن میں شمالی افغانستان کے تاجک زبان بولنے والے، دری زبان کے لوگ بھی شامل ہیں وہاں مختلف قومیتوں کے لوگ آباد ہیں۔ مختلف سیاسی اور جہادی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں وسیع البنیاد حکومت کا مطلب ان تمام بڑے نسلی، لسانی اور قومی گروپوں کی حکومت میں شمولیت ہے۔ ایک قومی حکومت ہی شورش زدہ ملک میں امن بحال کرسکتی ہے اور ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتی ہے۔ اور عالمی برادری کو بھی افغانستان میں ایسی ہی حکومت قبول ہوگی۔ اپنے تین ماہ کے دور اقتدار میں طالبان نے کچھ اچھے کام بھی کئے ہیں۔ بدعنوان اہلکاروں کو سرکاری عہدوں سے فارع کیا ہے۔ لڑکیوں کوتعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کئے جارہے ہیں۔ شدت پسند تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا ہے اس سلسلے میں ننگر ہار میں داعش کا ٹھکانہ تباہ کرکے آٹھ شدت پسندوں کو ہلاک اور دس کو گرفتار کرلیا ہے۔