وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی‘ ترقی‘ اصلاحات اور خصوصی اقدامات اسد عمر اپنی اہلیہ کے ہمراہ پشاور تشریف لائے اور اِس ایک روزہ دورے میں اُنہوں نے اندرون شہر کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کے علاؤہ گندھارا تہذیب کی تاریخ سے آشنائی کیلئے عجائب گھر کی سیر کی جبکہ گورگٹھڑی سے گھنٹہ گھر تک ’ثقافتی راہداری‘ اور محلہ سیٹھیان میں چہل قدمی سے لطف اندوز ہونے کے بعد تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔ ستارہئ امتیاز اسد عمر نے اِس موقع پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”سیاحت کے نکتہئ نظر سے پشاور ایک ایسا ’ہیرا (Gem)‘ ہے جس کے کئی پہلو تاحال دنیا کے سامنے پیش نہیں کئے جا سکے۔ خیبرپختونخوا کے پہاڑی علاقوں کی خوبصورتی کے بارے میں تو لوگ جانتے ہیں لیکن دنیا کے قدیم ترین اور اِس زندہ تاریخی شہر کے دامن میں تاریخ و ثقافت کی لاتعداد خزانے پوشیدہ ہیں جو تاریخ سے معمولی سا شغف یا دلچسپی رکھنے والے کیلئے خاص کشش کا باعث ہو سکتے ہیں۔ پشاور صرف تاریخی اعتبار ہی سے یگانہ نہیں بلکہ کئی مذاہب کے لئے مقدس شہر کی حیثیت بھی رکھتا ہے اور یہاں کی تاریخ کے اِس پہلو کو بھی زیادہ اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے (اُن کا اشارہ پشاور کے اِس پہلو سے متعلق تھا کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک گلدستے کی مانند پشاور میں صدیوں سے آباد ہیں۔ تعصبات و امتیازات سے پاک اِس سماجی تعلق سے جنم لینے والی رواداری نے پشاور کے تعارف کی جامعیت میں اضافہ کیا ہے)۔“ قابل ذکر ہے کہ کسی بھی عجائب گھر کا بنیادی مقصد وہاں نمائش کے لئے رکھے گئے نوادرات ہوتے ہیں اور 1907ء میں قائم ہونے والا پشاور کا عجائب گھر گندھارا (بدھ مت) تہذیب کے آثار کا خزانہ ہے۔ اِن آثار کو ایک خاص ترتیب اور تاریخی واقعات کے مطابق اِس سلیقے و ترتیب سے رکھا گیا ہے کہ عجائب گھر کی سیر کرتے ہوئے کوئی بھی شخص گندھارا تاریخ کے اہم واقعات و شخصیات اور اُس دور کے رہن سہن یا مالیاتی طور طریقوں سے آشنا ہو جاتا ہے اور صرف پشاور ہی نہیں بلکہ گندھارا کی پوری تاریخ و تہذیب اُس کی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ عجائب گھر کو جدید نمائشی خصوصیات سے آراستہ کرنے کیلئے جدید آلات کی تنصیب کا عمل بھی آخری مراحل میں ہے جس کے بعد تاریخ ’انٹرایکٹو (حقیقی)‘ انداز میں پیش کی جا سکے گی۔ عجائب گھر کی تعمیراتی خوبصورتی کی بحالی اور اِسے جدید خطوط اور ترتیب و تشکیل سے پیش کرنے کی کوشش حال ہی میں مکمل ہوئی ہے اور اگرچہ نئی شکل و صورت میں عجائب گھر کا باقاعدہ افتتاح نہیں ہوا لیکن یہاں خاص (اہم) ملکی و غیرملکی مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے جنہیں داخلے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اسد عمر نے وعدہ کیا ہے کہ وہ وزیراعظم عمران خان سے عجائب گھر کے باقاعدہ افتتاح کرنے کیلئے درخواست کریں گے‘ جس کا مقصد اِسے عالمی ذرائع ابلاغ کی نظروں میں بھی لانا ہے کیونکہ جب عمران خان نے (رواں برس ماہئ اگست) میں چند گھنٹوں کے لئے وادیئ کمراٹ (خیبرپختونخوا کے ضلع بالائی دیر) کا دورہ کیا تھا تو بعدازاں وہاں سیاحوں کا تانتا بندھ گیا اور اندرون و بیرون ملک لاکھوں لوگ وزیراعظم کی وجہ سے ’وادیئ کمراٹ (Kumrat)‘ سے آگاہ ہوئے‘ جو تاحال سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کی صورت جاری ہے۔ بقول اسد عمر پشاور کے عجائب گھر کا بدست ِوزیراعظم عمران خان افتتاح ہونے سے نہ صرف مقامی و ملکی بلکہ غیرملکی سیاحوں کی توجہ عجائب گھر اور پشاور کی تاریخ جانب مبذول ہوگی بلکہ اُنہوں نے اِس یقین کا بھی اظہار کیا کہ اِس سے پشاور شہر کی سیاحت کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔ اسد عمر نے بطور خاص یہ بات زور دے کر کہی کہ پشاور اور پشاور کے عجائب گھر کی سیر کیلئے آنے والے مایوس نہیں ہوں گے کیونکہ یہاں پر اتنا کچھ اُنہیں ایک ہی جگہ دیکھنے کو ملے گا۔“ اسد عمر کا سرکاری مصروفیات سے وقت نکال کر پشاور کے مختلف حصوں کی سیر اور پہلی صدی عیسوی میں قائم ہونے والی بدھ مت کی یادگار ’تخت بھائی‘ کا دورہ اپنی جگہ اہم ہے‘ تاہم ایک روز میں پشاور کے تمام سیاحتی مقامات اور خوبیوں کو نہیں دیکھا جا سکتا۔ ذہن نشین رہے کہ تخت بھائی اقوام متحدہ کی جانب سے ”عالمی ورثہ“ قرار دیئے گئے 6 ثقافتی مقامات میں سے ایک ہے جس کا پشاور سے فاصلہ قریب ستر کلومیٹر اور براستہ پشاور اسلام آباد موٹروے کل مسافت ڈیڑھ گھنٹے کی ہے‘ قومی ترقی کو اپنے وسائل سے ممکن بنانے آپ کے بارے میں عمومی تاثر یہی تھا کہ اقتصادی امور کے کسی ماہر کے لئے تاریخ و ثقافت جیسے لطیف مضمون اور کسی اجنبی شہر کی تاریخ و ثقافت میں زیادہ دلچسپی نہیں ہوگی لیکن جس انداز میں اُنہوں نے عجائب گھر اور پشاور شہر کے مختلف حصوں کی سیر کے دوران دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور پشاور کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کیلئے سوالات کرتے رہے جنہیں مدنظر رکھتے ہوئے اُن کی شخصیات کا ایک بالکل مختلف پہلو اُبھر کر سامنے آیا‘ اسد عمر کی نظریں اُسی خاص نکتے پر مرکوز تھیں کہ سیاحتی سرگرمیوں میں اضافے سے پاکستان زرمبادلہ کما سکتا ہے اور دنیا کے کئی ممالک کی اقتصادیات و آمدن کا انحصار سیاحتی سرگرمیوں پر ہے‘ جس کے ذریعے اُن کی عالمی ساکھ بھی بہتر ہے۔ پاکستان میں امن و امان کی بحالی کے بعد سیاحت اور سیاحتی ترقی سے متعلق اگر حکومتی ترجیحات وضع کی جائیں اور وفاقی حکومت پشاور میں سیاحت کی ترقی کیلئے خصوصی ترقیاتی پیکیج کا اعلان کرے‘ تو اِس سے کئی شعبوں بشمول روزگار کے مواقعوں میں اضافے جیسے فوائد بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔