خیبر پختونخوا حکومت نے سرکاری محکموں میں خالی اسامیوں پر تین ماہ کے اندر بھرتیاں مکمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے محکمہ جنگلات میں بارہ سو فارسٹ گارڈز کی فوری بھرتی کا حکم جاری کردیا اور محکمہ اوقاف کی مساجد کے خطیبوں کی تنخواہ آٹھ ہزار روپے ماہانہ سے بڑھاکر 21ہزار کرنے کی بھی منظوری دیدی۔ صوبائی ترقیاتی پروگرام کے منصوبوں کا جائزہ لینے سے متعلق اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے رواں مالی سال کے اختتام تک تمام ترقیاتی فنڈ ز کے استعمال کو یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔ وزیراعلیٰ نے ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کیلئے مانیٹر نگ اینڈ ایوالویشن سیل کو مزید مستحکم کرنے اور اس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کی ہدایت کی۔اجلاس میں ترقیاتی منصوبوں کے ٹھیکوں کا عمل شفاف بنانے کیلئے وزیرخزانہ کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔کمیٹی پندرہ دنوں کے اند ر ٹھوس تجاویز منظوری کیلئے حکومت کوپیش کرے گی۔وزیراعلیٰ نے محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کو ڈپیوٹیشن پر دوسرے محکموں میں انتظامی عہدوں پر تعینات تمام اساتذہ کو ایک ہفتے کے اندرواپس بلانے کی ہدایت کی۔صوبائی محکموں میں خالی اسامیوں پر بھرتی کا حکم اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ صوبے کے زیر انتظام 26محکموں میں ہزاروں اسامیاں خالی ہیں میرٹ کے تحت ان اسامیوں پر بھرتیوں سے ہزاروں تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کا روزگار ملے گا اور صوبائی محکموں کی کارکردگی بھی بہتر ہوگی۔ ڈیپوٹیشن پر اساتذہ کی دوسرے محکموں میں تعیناتی کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ اس سے تعلیم کے شعبے اور قوم کے بچوں کا نقصان ہوتا ہے۔محکمہ تعلیم کو تدریسی سٹاف کی کمی کا مسئلہ پہلے سے درپیش ہے۔مالی مفادات یا سیاسی مداخلت سے ایک محکمے کے افسروں کو دوسرے محکموں میں بھیجنا قواعد کی خلاف ورزی ہے تاآنکہ ہنگامی بنیادوں پر یہ تعیناتی ناگزیر نہ ہو۔ صوبائی حکومت کی طرف سے جاری ترقیاتی فنڈز کے سو فیصد استعمال کا فیصلہ بھی حوصلہ افزاء ہے۔ اب تک مختلف صوبائی محکموں کے نصف سے زیادہ ترقیاتی فنڈز لیپس ہوتے رہے ہیں۔ بعض محکمے اپنے ترقیاتی فنڈز کا تیس فیصد بھی استعمال نہیں کرتے۔جس کی وجہ سے ان محکموں کی کارکردگی پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ ترقیاتی فنڈز کے استعمال کولازمی قرار دینے کے ساتھ اس کی مانیٹرنگ بھی ضروری ہے تاکہ فنڈزکوبروئے کار لانے کیلئے اس میں خردبرد اور اسراف نہ ہونے پائے۔صوبائی حکومت نے سرکاری مساجد کے خطیبوں کی تنخواہ مزدور کی کم سے کم اجرت کے برابر رکھنے کا مستحسن فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کا اطلاق فیکٹریوں، اینٹوں کی بھٹیوں، دکانوں، دفاتر اور دیگر نجی اداروں میں کام کرنے والے محنت کشوں پر بھی ہونا چاہئے۔ حکومت کو اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کا بھی ایک جامع اور موثر میکنزم بناناچاہئے تاکہ عوامی مفاد میں کئے گئے فیصلوں کے ثمرات عام لوگوں تک بھی پہنچ سکیں اور ان کا معیار زندگی بہتر ہوسکے۔ خیبر پختونخوا قانون سازی کے حوالے سے دیگر صوبوں سے ہمیشہ آگے رہا ہے۔ اس صوبے میں پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کا دوسرا موقع ملا ہے۔ دس سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد 2023میں جب حکمران عوام کی عدالت میں جائیں گے تو ان کے پاس عوام کو دکھانے کیلئے کارکردگی بھی ہونی چاہئے۔جس کیلئے حکومتی رٹ قائم کرنا اور مانیٹرنگ کا نظام فعال اور موثر بنانا ضروری ہے۔ عوام کا حکومت پر اعتماد بحال کرنے کیلئے بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، چور بازاری اور اداروں میں کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے۔ بدقسمتی سے حکومت کی بھر پور کوششوں کے باجود کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں ابھی کامیابی نہیں ملی اب بھی بعض محکموں میں نوٹوں کے پہیے لگائے بغیر لوگوں کے جائز کام بھی نہیں ہوتے۔صوبائی حکومت کو رشوت ستانی اور کرپشن کی بیخ کنی کیلئے مزید ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ جزاوسزا کا سخت نظام لاناہوگا۔اچھی کارکردگی پر انعام و اکرام اور غفلت و لاپرواہی اور ناقص کارکردگی پر عبرت ناک سزا سے ہی اصلاح احوال ممکن ہے۔