گزشتہ دنوں ایک دوست نے بچوں کی تربیت کے چند زریں اصول بتائے اور اس بات پر کافی حد تک افسوس کیا کہ گزشتہ کئی سالوں سے بچوں کی تربیت پر کوئی توجہ نہیں دی گئی کہ بہتر تعلیم حاصل کرسکے تاکہ انکا مستقبل بہتر ہو اور وہ زیادہ کمائی کرکے پرتعیش زندگی گزر سکیں۔ انکے مطابق ہمارے معاشرے میں بگاڑ کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ تربیت کو ہم نے اہمیت بھی نہیں دی۔ان دوست کے مطابق بچوں کو یہ بات سکھانی ضروری ہے کہ وہ کامیاب انسان ضرور بنیں مگر اس سے قبل وہ اچھے انسان بنیں کیونکہ اس دنیا خاص کر ہمارے معاشرے میں ایک طویل عرصہ سے اچھے انسانوں کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے انکے مطابق بچوں کو سکھائیں کہ وہ زندگی میں بہتر مقام حاصل کرنے کیلئے اچھی زندگی گزارنے کیلئے اور ایک مقام حاصل کرنے کیلئے ضرور دوڑ دھوپ کریں لیکن کسی کے ساتھ اپنا مقابلہ نہ رکھیں کیونکہ مقابلے کی دوڑ زندگی بھر ختم نہیں ہوگی۔ بچوں کو یہ بات سکھائیں کہ خود کسی کی مدد پر انحصارکرنے کی بجائے ان لوگوں کی مدد کرنے والے بنیں جو ان کے خاندان میں اور اردگرد ہیں کیونکہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے انہیں بتائیں کہ کسی حد تک پیسہ اور سہولیات ضروری ہیں مگر اس سے زیادہ ضروری اور اہم یہ ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ ہے اس کا شکر ادا کریں اپنی صحت خاندان اور میسر نعمتوں سے لطف اٹھائیں نہ کہ ساری عمر صرف ان چیزوں کے پیچھے بھاگ کر ضائع کردیں جو ان کو حاصل نہیں۔ بچوں کو یہ بات ذہن نشین کرانی ہے کہ انکے اخلاق‘ ان کا نرم دل اور نرم لہجہ دوسروں سے ہمدردی اور انکی مدد ان کو دنیا و آخرت میں عزت اور مقام دے گی انہیں یہ بات ذہن نشین کرانی ہے کہ خدا کے خزانوں میں 100فیصد کسی کو نہیں ملتا ہر کوئی کسی نہ کسی سمت سے محروم ہے اور اسی کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ غریب پیسہ کے پیچھے‘ امیر عزت اور سکون کے پیچھے‘ بیمار صحت کے پیچھے‘ بے اولاد اولاد کے پیچھے‘ کوئی اقتدار‘ عہدے کیلئے زندگی خوار کر رہا ہے حالانکہ ہر کسی کو خدا کے خزانوں اور نعمتوں میں سے80 فیصد سے زیادہ میسر ہے یہ نعمتیں ہر دوسرے شخص سے مختلف ہو سکتی ہیں اور لوگ صرف اسکے پیچھے بھاگتے ہیں جو انکے پاس نہیں۔ تگ ودو اور محنت ضروری ہے لیکن ساتھ ہی حاصل نعمتوں کا شکراور اس سے لطف اندوز ہونا زیادہ ضروری ہے جس کو یہ فن آگیا اسکی زندگی دوسروں سے بہتر ہوتی ہے۔ بچوں کو یہ بات بھی سکھانی ضروری ہے کہ زندگی میں کبھی کسی کی باتوں کی پرواہ نہیں کرنا کیونکہ ناکام لوگ بھی دوسروں کے پیچھے باتیں کرتے ہیں اور کامیاب لوگ صحیح رستے پر اپنے اصول کے مطابق زندگی گزارتے ہیں بچوں کو یہ بھی سکھانا ضروری ہے کہ صرف اپنے زور بازو پر اعتماد کرنا ہے کسی سے کوئی توقع نہیں رکھنی کیونکہ اس سے ہمیشہ مایوسی ہوتی ہے صرف خدا اور توکل کرنا ہے اور خود ہر کسی کی مدد کرنی ہے کیونکہ دوسروں کی مدد کرنے میں جو لطف ہے وہ دنیا کے کسی کام میں نہیں خاص طور پر جب نیت صرف خدا کی رضا ہو اگر ہم اپنے معاشرے کو بہتر بنانا چاہتے ہیں یہ چاہتے ہیں کہ ہماری آئندہ آنے والے نسلیں آج کے مقابلے میں بہتر معاشرہ اور ماحول حاصل کریں تو تعلیم کے ساتھ تربیت پرزور دینا ضروری ہے بچوں کو اس بات کا ہر دم احساس دلانا ضروری ہے کہ جھوٹ‘ بدعنوانی‘ حرام وقتی طورپر فائدہ تو دے سکتی ہے مگر اس دلدل میں پھنسنے والوں کی نہ صرف آخرت خراب ہوتی ہے بلکہ ایک وقت بعد انکی زندگی میں بھی انکو نظر آنے لگتا ہے کہ وہ جس رستے پر چل رہے ہیں اس کا نقصان فائدے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اچھے معاشروں میں اسی وجہ سے روایتی تعلیم سے زیادہ زور تربیت پر دیا جاتا ہے ہمارے ہاں اسلامی معاشرہ ہے بچوں اور بڑوں کی زندگی کے بارے میں سارے اصول قرآن اور حدیث کی صورت میں موجود ہیں بات صرف اس پر عمل کرنے کی ہے۔