ایک بارپھرسعودی حکومت نے وزیر اعظم عمران کی درخواست پر پاکستان کیلئے پیکج کااعلان کیاہے جس کے تحت تین ارب ڈالر حکومت پاکستان کے اکاؤنٹ میں جلد منتقل ہوجائیں گے جبکہ مؤخر ادائیگیوں پرتیل بھی فراہم کیاجائے گا تین ارب ڈالر کی فراہمی کامقصد ڈالر کی اُڑان کوقابومیں رکھناہے اس سے قبل بھی سعودی عرب کی طرف سے اس قسم کاپیکج دیاگیاتھا درحقیقت پاکستان کو اپنے زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم رکھنے کیلئے اس قسم کے پیکج کی اشد ضرورت تھی جس کے بعداب یہ امید کی جارہی ہے کہ ڈالر کی اُڑان کو کنٹرول کرلیاجائے گاکیونکہ حالیہ عرصہ کے دوران پاکستان میں ڈالر تیزی سے اپنی پرواز جاری رکھے ہوئے ہے جس کے باعث ملکی معیشت کا کچومر نکل گیا ہے اور مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔سعودی پیکج کے اعلان کے فوراً بعد ڈالر کی قیمت میں ساڑھے تین روپے تک کمی بھی ریکارڈ کی گئی جس کو مثبت تبدیلی کی طرف پیشرفت قراردیاجارہاتھاتاہم اب ایک بارپھرڈالرنے اُڑان بھری ہے اور اس نے 178کا ہندسہ عبور کرلیاہے معاشی مبصرین کے مطابق حالیہ اضافہ سے بیرونی قرضوں میں دوہزار ارب روپے کااضافہ ہوچکاہے فاریکس ڈیلرزڈالر کی قیمت میں اضافہ کی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ بے نتیجہ مذاکرات کو قرار دے رہے ہیں یہ بھی کہاجارہاہے کہ حکومت نے چین سے بھی رجوع کرلیاہے اور ایم ایل ون سمیت دو منصوبوں کیلئے ملنے والے بارہ ارب ڈالر کی ایک فیصد سود پر پیشگی ادائیگی کی درخواست کی ہے اسی طرح مشیر خزانہ شوکت ترین کاکہناہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ کی وجہ سٹے باز ہیں جلد ہی آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب ہونگے جس کے بعدسٹے بازوں کو مارپڑے گی انہوں نے اعتراف کیاکہ ڈالر کی قیمت گیارہ روپے زیادہ ہے دوسری طرف ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے کے باعث ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، ڈالر کی قیمت بڑھنے سے درآمدی اشیا مزید مہنگی ہوجائیں گی، جس سے مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ چند روز قبل سٹیٹ بینک درآمد شدہ گاڑیوں کیلئے بینکوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے قرضوں پر پابندی عائد کر چکا ہے۔ گاڑیوں پر قرضے کی زیادہ سے زیادہ مدت کو سات سال سے پانچ سال کر دیا گیا ہے اور گاڑی کیلئے دیئے جانے والے قرضے کیلئے ڈاؤن پیمنٹ پندرہ فیصد سے بڑھا کر تیس فیصد کر دی گئی ہے ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے، چنانچہ خزانے سے ڈالر کم ہونے اور مقامی کرنسی کی قدر گرنے کا نتیجہ مہنگائی کی صورت میں نکلتا ہے۔عام خیال یہ ہے کہ پاکستان میں ڈالر کی قدر میں اضافے اور اس کی اوپن مارکیٹ میں عدم دستیابی کا براہِ راست تعلق بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کے حصول کیلئے طے پانے والے معاہدے سے ہے۔تاہم چند ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر کئی عوامل بھی روپے کی قدر میں حالیہ کمی اور ڈالر کی قیمت اور مانگ میں اضافے کا باعث ہیں۔کسی بھی کرنسی کی قدر اس کی رسد اور طلب پر منحصر ہوتی ہے جب کسی کرنسی کی رسد میں کمی واقع ہوتی ہے اور طلب میں اضافہ تو اس کی قدر یا قیمت بڑھ جاتی ہے آج کل ایسی افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ روپے کی قیمت مزید گرے گی اس لیے ڈالر کے خریدار تذبذب کا شکار ہیں کہ آیا روپے کی قیمت مزید گرے گی یا مستحکم ہو گی، سو وہ اس خوف میں ڈالر زیادہ تعداد میں خرید رہے ہیں۔ اس عمل سے مارکیٹ میں ڈالر کم ہو رہا ہے اور ایک قسم کی ذخیرہ اندوزی کا خدشہ ہے ساتھ ہی پندرہ اگست کے بعدسے ڈالر کی افغانستان منتقلی کے حوالہ سے بھی خبریں سامنے آچکی ہیں جس پر اب اعلیٰ سطحی تحقیقا ت بھی کی جارہی ہیں پاکستان میں بعض اوقات کئی بڑے منی چینجرز بھی ڈالر کی مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں۔ مصنوعی قلت پیدا ہوتے ہی چونکہ رسد میں کمی اور طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے، اس لیے ڈالر مہنگا ہو جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہو جاتی ہے مصنوعی قلت پیدا کرنی ہو تو عموما ًڈالر کی ذخیرہ اندوزی کی جاتی ہے اور ایسی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں کہ روپے کی قیمت کئی فیصد تک گر جائے گی، جس کے بعد خریدار کوشش کرتا ہے کہ وہ ایسا ہونے سے پہلے ہی زیادہ سے زیادہ ڈالر خرید لے۔اس سے طلب رسد میں فرق آتے ہی ڈالر کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور روپے کی قیمت گر جاتی ہے۔ڈالر کی قیمت میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی سے کوئی ایک نہیں ہر طبقہ متاثر ہو گا۔ایک تو امپورٹرز ہیں۔ پاکستان میں پہلے ہی درآمدات کی شرح برآمدات سے زیادہ ہے۔ ڈالر کی قدر میں اضافے سے یہ مزید مہنگی ہو جائیں گی۔ امپورٹرز کو اب زیادہ مہنگا ڈالر خریدنا پڑے گا، اور کسٹمر تک یہ اشیا مہنگے داموں پہنچیں گی۔ یہاں تک کہ ملک میں تیار ہونے والی اشیا بھی مہنگی کر دی جاتی ہیں، کبھی خام مال کے نام پر اور کبھی یونہی سب کی دیکھا دیکھی۔ اس لیے ڈالر جتنا مہنگا ہوگا، پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔ اگر تو یہ سب افواہوں کی بدولت ہے تو پھر چند ہی دنوں میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ لیکن اگر ڈالر کی قدر میں یہ اضافہ طویل المدتی ہے تو پھر اس کے خوفناک اثرات سامنے آئیں گے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے جو طبقہ فوری طور پر متاثر ہوتا ہے وہ اپر مڈل کلاس ہے۔یعنی وہ لوگ جو امپورٹڈ اشیا کا استعمال کرتے ہیں۔ ان اشیا کی برآمد اب مہنگی ہو جائے گی اور یوں ان کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ اس کا سب سے زیادہ اثر پٹرولیم مصنوعات کی برآمدات پر بھی پڑتا ہے، یہ مصنوعات مہنگی ہو جاتی ہیں اور یوں ان سے جڑی روزانہ استعمال کی تمام ضروری اشیا بھی۔پاکستان میں 2018 کے انتخابات کے بعد بننے والی تحریک انصاف کی حکومت کو اس وقت مہنگائی کی وجہ سے سب سے زیادہ تنقید کا سامنا ہے تحریک انصاف کی حکومت کے تین سال مکمل ہونے پر وزارت خزانہ نے خوردنی اشیا کی قیمتوں کے سلسلے میں ایک بیان جاری کیا گیاجس میں یہ اعتراف تو کیا گیا کہ گزشتہ تین برسوں میں قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے تاہم حکومت کی جانب سے یہ دعوی کیا گیا ہے کہ اس نے عالمی سطح پر خوردنی اشیا کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو مکمل طور پر صارفین کو منتقل نہیں کیا اور عالمی سطح پر ہونے والے اضافے کو برداشت کر کے صارفین کو قیمتوں میں بہت زیادہ ہونے والے اضافے سے بچایا ہے۔حکومت کے اس دعوے میں کتنی حقیقت ہے، اس کے متعلق اجناس اور معیشت کے ماہرین کہتے ہیں کہ اس دعوی میں بہت زیادہ سچائی نہیں ہے۔ ان کے مطابق حکومت کی جانب سے کیا جانے والا دعوی اس حد تک تو صحیح ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی عالمی سطح پر زیادہ قیمت کو پوری طرح عوام پر منتقل نہیں کیا گیا تاہم کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ پوری طرح عوام کو منتقل ہوا ہے۔ماہرین کے مطابق پاکستان میں اب بڑی تعداد میں خوردنی چیزوں کی درآمد ہو رہی ہے اور ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے بھی ان کی قیمتیں بڑھی ہیں تاہم ایک طرف وزیر اعظم کی طرف سے ریلیف پیکج فراہمی کااعلان ہوچکاہے جبکہ دوسری طرف فی الوقت ڈالر کی اُڑان پر کسی حد تک قابوپایاجاچکاہے تاہم جب تک روپے کی قدر مزید مستحکم نہیں ہوتی مہنگائی پر کنٹرول کے حوالہ سے پیش گوئی کرنا مشکل نظرآتاہے۔