چین نے پاکستان سے ڈیری مصنوعات درآمدکرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ سی پیک کے تحت پاکستان میں ڈیری انڈسٹری میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا امکان ہے۔ چین کی سب سے بڑی برائٹ ڈیری اینڈ فوڈ کمپنی کے اوورسیز بزنس منیجرلی یو نجی نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان چینی صارفین کی دودھ کی مصنوعات کی مانگ کو بھی پورا کرے گا۔ان کا کہنا تھا کہ چین میں پنیر، ملائی، مائع تازہ دودھ، دہی، خشک دودھ اور دودھ سے پیدا ہونے والی دیگر مصنوعات کی مانگ میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ بچوں کیلئے دودھ کے پاؤڈر، بڑے پاؤڈرپیکٹ،لسی اور مکھن کی مارکیٹ بڑھتی جارہی ہے۔چین نے گذشتہ سال 3.39 ملین ٹن ڈیری مصنوعات درآمد کیں اور ڈیری مصنوعات کی درآمد میں سالانہ 10.2 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔اور ڈیری درآمدات کا حجم 12.4 بلین ڈالر ہے،اس وقت چین 44فیصد ڈیری مصنوعات نیوزی لینڈ،17.15فی صد نیدر لینڈر اور7.38فی صدآسٹریلیا سے درآمد کرتا ہے۔ پاکستان سے ڈیری مصنوعات کے شعبے میں تعاون بڑھنے کی صورت میں پاکستان 5ارب ڈالر سالانہ تک دودھ اور اس کی مصنوعات چین کو برآمد کرسکتا ہے۔پاکستان میں ڈیری کی صنعت کے فروغ پر اب تک مناسب توجہ نہیں دی گئی۔ ٹیکسٹائل، ادویہ سازی اور کھیلوں کی مصنوعات کے ساتھ دودھ اور اس سے بنی ہوئی مصنوعات کی برآمد سے پاکستان سالانہ اربوں ڈالر کما سکتا ہے۔ ہمارا ملک موسمیاتی لحاظ سے گائے، بھینس، بھیڑ، بکری اور خوش گاؤ کی افزائش نسل کیلئے نہایت موزوں ہے۔ڈیری کی صنعت کو ترقی دے کر نہ صرف دودھ کی پیداوار بڑھائی جاسکتی ہے بلکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو اربوں ڈالر کا حلال گوشت بھی برآمد کیا جاسکتا ہے۔ دودھ کی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پراسیسنگ سے دیسی گھی، دہی، لسی، پنیر اورتازہ مائع اور خشک دودھ کے پیکٹ تیار کئے جاسکتے ہیں جن کی نہ صرف چین بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں بڑی مانگ ہے۔چین نے پاکستان سے ڈیری مصنوعات درآمد کرنے کی تجویز سامنے لاکر ہماری معیشت کی ترقی کے نئے راستے کی نشاندہی کی ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ذریعے جہاں مواصلات، رسل و رسائل، توانائی اور صنعتی ترقی میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ وہاں سی پیک کے ذریعے ڈیری کی صنعت کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے اس حوالے سے مذکورہ صنعت میں ترقی یافتہ ممالک سے بھی فنی اور مالی امداد حاصل کی جاسکتی ہے۔ خیبر پختونخوا سمیت پاکستان کی 70فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ جہاں کی معیشت کا زیادہ انحصار زراعت اور مویشی پالنے پر ہے۔ ڈیری فارمنگ کے جدید طریقوں سے آگاہی نہ ہونے اور مصنوعات کی مارکیٹ تک عدم رسائی کی وجہ سے دودھ اور گوشت کی پیدوار ضائع ہوتی ہے۔ دیہی علاقوں میں گائے، بھینس، بھیڑ اور بکریاں پالنے کیلئے حکومت خصوصی پیکج کا اعلان کرے اور مصنوعات کو مارکیٹ تک پہنچانے کا اہتمام کرے تو نہ صرف ڈیری مصنوعات کی برآمد سے قیمتی زرمبادلہ کمایاجاسکتا ہے بلکہ دیہی علاقوں میں روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا کئے جاسکتے ہیں جس سے غربت کی شرح کم کرنے میں خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے۔ خیبر پختونخوا کے پہاڑی اور سرد علاقے خوش گاؤ کی نسل کشی کیلئے نہایت موزوں ہیں، گلیات، کاغان، ناراں، کوہستان، بٹگرام، شانگلہ، بونیر، سوات، دیر اور چترال کے علاوہ ضلع اورکزئی اورخیبر کی آب و ہوا خوش گاؤ کی نسل کشی کیلئے آئیڈیل ہے۔ خوش گاؤ کا دودھ گاڑھا اور گائے کے دودھ سے مقدار میں زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا گوشت بھی دنبے، بھیڑ اور بکری کے گوشت کی طرح چھوٹے گوشت میں شمار ہوتا ہے۔اس مفید جانورکی نسل بڑھانے کیلئے حکومتی سرپرستی ناگزیر ہے۔