اب تو وہ پروفیسرکم کم ہی کہیں نظر آتے ہیں جو فٹ پاتھوں پراپنے آگے چند جنتریاں اور فال نامے رکھ کر بیٹھے ہوتے تھے اور آتے جاتے لوگوں کو ان کی قسمت کا حال بتایا کرتے تھے، قسمت کا حال بتانے والے کچھ پروفیسرزکے پاس ایک سدھایا ہوا توتا ہو تا جولائن پر ترتیب سے رکھے ہوئے لفافوں میں سے کوئی ایک لفافہ اپنی چونچ سے الگ کر دیتا اور پروفیسر اس لفافہ سے ایک پرچی نکال کر پڑھتا۔ جس پر کچھ عمومی باتیں لکھی ہوتیں، ”تمہارے لئے آنے والے چند برس بہت خوشحالی کے ہوں گے یا پھراحتیاط کریں کہ آنے والے دنوں میں آپ بری خبریں سنیں گے۔ انسان کتنا بھی خود کو مضبوط اعصاب کا مالک سمجھے یا ایسی باتوں کو کتنا بھی ضعیف الاعتقادی پر محمول کرے لیکن انسان عاجز ہے جب اسے ایسی بات بتا دی جائے تو کہیں اس کے اندر ایک خوف اس کے ساتھ ساتھ رہنے لگتا ہے اور دل کو ہمہ وقت ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے وہ لاکھ سر جھٹکتا رہے، مگر اس سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا۔یہ وہم ہے اور ”وہم کی بیماری کا علاج کسی کے پاس نہیں“ کبھی کبھی یہ وہم دل میں خود بخود پیدا ہو جاتا ہے اور کبھی کبھی کوئی پروفیسر دل میں ڈال دیتا ہے، بھلے سے ”توتا فال“کے ذریعے ہو یا پھرسلیٹ پر بنائے ہوئے ابجدی زائچہ کا نتیجہ ہو نہیں تو پھر ہاتھوں کی لکیروں کی زبانی کچھ ایسی ہونی انہونی باتیں ذہن میں بٹھا دی جاتی ہیں کہ لاکھ چاہنے کے باوجود ان کو ذہن سے نکالنا ممکن نہیں ہوتا اور پھر خوانخواہی ان پر یقین کرنا پڑتا ہے،بعض پروفیسر بہت کائیاں ہو تے ہیں اپنی باتوں کو ایسا الجھا دیتے ہیں کہ ان کے ایک سے زیادہ مطلب نکلتے ہوں اور آپ سارا وقت مخمصہ میں پڑے رہتے ہیں، ایک صاحب کے ہاتھ کی لکیریں دیکھنے کے بعد ایسے ہی ایک پروفیسرنے اسے بتایا کہ آنے والے دس سال بہت سخت ہیں آپ کو بہت پریشانیاں لاحق ہوں گی اور آپ اپنی زندگی سے بیزار رہیں گے۔ ان صاحب نے پھر امید بھرے لہجے میں پو چھا اور دس سال کے بعد؟ تو جواب ملا پھر آپ ان حالات سے بیزار یا تنگ نہیں ہوں گے کیونکہ تب تک آپ عادی ہو چکے ہوں گے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ کوئی ایسا ہی پروفیسر ہمیں بھی یہ خوش خبری سنا چکا ہے کہ ہم اپنے گرد و پیش کے حالات سے سمجھوتا کرچکے ہیں، یا پھر میکانکی انداز کی زندگی گزارنے کے عادی ہو چکے ہیں،سہولتیں تو خیر کیا میسر ہوں گی لیکن ضروریات کی اشیاء کے دسترس سے نکلنے پر بھی ہم نے کڑھنا اور شور مچانا تو ایک طرف حیران ہو نا بھی چھوڑ دیا۔ اس گلابی زمستان کی رت میں جب گھروں میں بجلی سے چلنے والے پنکھے کولر اور ائیر کنڈیشنڈ مشینوں تک سب بند ہو جایا کرتے تھے تو لوڈ شیڈنگ کا جن بھی بوتل میں بند ہو جایا کرتا تھا۔ مگر اب کے اس جن کو بوتل میں بند کرنے کا کسی کو خیال ہی نہیں آ رہا اور پشاور کی حد تک بعض علاقوں میں اب لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بجلی ہونے کے اوقات سے بڑھ کر ہوتا جاتا ہے اور ورسک روڈ کی آبشار کالونی کا حوصلہ دیکھیں تو اس نے شاید سارے پشاور کے حصے کی لوڈ شیڈنگ کا ذمّہ لے رکھا ہے، ہر روز نہیں تو ہر دوسرے دن بجلی صبح سویرے پرندوں کی طرح کہیں سیر کو نکل جاتی ہے اور پھر ان ہی کے ساتھ لوٹتی ہے اور اس علاقے کے راضی بہ رضا قسم کے شہری چپ سادھے اپنے حصّے کا کام کررہے ہوتے ہیں، اس دوران اگر چہ شور بڑھ جاتا ہے مگر یہ کوئی احتجاجی شور نہیں ہوتا بلکہ یہ شور ان جنریٹرز کا ہو تا ہے جو یو پی ایس کے بیٹھ جانے کے بعد گلیوں میں دھاڑنا شروع ہو جاتے ہیں اور اب کے جو قدرتی گیس کا بحران شروع ہو چکا ہے اور ادھر ادھر سے آوازیں بھی اٹھنا شروع ہوئی تھیں تو ان آوازوں میں ورسک روڈ کے مکینوں کی آوازیں شامل نہیں تھیں کیونکہ بہت سے علاقوں میں تو خیر سے یہ قدرتی گیس ابھی پہنچی نہیں اور جہاں ہے تو جاننے والے بتاتے ہیں کہ بس میٹرز کی حد تک ہی ہے سو گیس کی موجودہ کمی کا یہاں کے مکینوں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا کہ جب بحران نہیں بھی تھا تو بھی یہاں صورت حال ایسی ہی تھی کہ بہت سے علاقوں میں تو ”آب آمدو تیمم بر خاست“(باطل شد) کی طرح ”بجلی آئی اور گیس گئی“ قسم کی آوازیں بھی سننے کو ملتیں اور اب تو گیس کی آمد و رفت کے لئے باقاعدہ آداب مرتب ہو رہے ہیں ٹائم ٹیبل بنائے جارہے ہیں، ٹائم ٹیبل تو سب سے پہلے ریلوے کے حکام بھی شائع کرتے تھے خاصا ضخیم ہوا کرتا تھا جس کا مقابلہ صرف ٹیلیفون کی ڈائریکٹری ہی کر سکتی تھی،مگر اتنا ضخیم ٹائم ٹیبل بناتو دیتے تھے مگر حکام یہ بھول جاتے کہ ریلوے کے سارے انجن ان پڑھ ہیں حرام ہے جو کبھی ٹائم ٹیبل کی پروا کی ہو بلکہ ایک ستم ظریف نے ایک بار ایک ریلوے کے ایک افسر سے پو چھ بھی لیا کہ جناب آپ جو اتنا ضخیم ٹائم ٹیبل چھاپتے ہیں جس میں ریل گاڑیوں کی آمد و رفت کے اوقات لکھے ہوتے ہیں مگر آج تک کوئی ٹرین تو کبھی وقت پر آئی نہیں، تو اس ریلوے آفیسر نے یہ کہہ کر سوال کرنے والے کو لا جواب کر دیا کہ، ”حضور اگر ہم یہ ٹائم ٹیبل شائع نہ کریں تو کسی کو بھی کیا پتہ چلے گا کہ کوئی بھی ٹرین کتنی لیٹ ہے“ چلئے اب گیس کی فراہمی کے لئے سرکار کی طرف سے قدرتی گیس کی شدید قلت کے پیش ِ نظر اوقات کار مقر کرنے کی خبریں آئیں جس کے مطابق گھریلو صارفین کو دن میں تین بار گیس فراہم کی جائے گی۔ اس سے بھی یار لوگوں کو کئی ایک فائدے حاصل ہوں گے، ایک تو یہاں وہاں کال کر کے یہ پوچھنا نہیں پڑے گا۔ کہ ”آپ کے ہاں گیس آرہی ہے“ اور بڑا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ وہ جو ایک روایتی سستی اور لا بالی پن یار لوگوں کے مزاج میں جڑ پڑ چکا ہے اْس سے نجات مل جائے گی۔گویا اب ہر شخص کو صبح سویرے جاگ کر بروقت ناشتہ کرنا، دوپہر لگے بندھے وقت پر ظہرانہ اور رات کا کھانا بھی جلد کھانا پڑے گا تا کہ دس بجے سے پہلے پہلے قہوہ بھی نوش جان کیا جاسکے۔ اس کے بعد چولہوں کے لئے توراوی چین ہی چین بتاتا ہے۔ البتہ یار لوگوں کے لئے ایک بات تکلیف دہ ہو گی کہ پشاور کی کہر آلود اور یخ بستہ صبحوں کو گرم بستروں سے اٹھ کر ان کو اپنے اپنے مکانوں کی دوسری تیسری یا پھر چوتھی چھت پر جانا پڑے گا تاکہ رات بھر چین کی نیند سونے والے ”گیزر“ کو جگایا جا سکے لیکن ابھی گیس کی فراہمی کے اس ٹائم ٹیبل کی خبر کو ٹھیک سے سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ پٹرولیم ڈویژن کے ارباب اختیار کی طرف سے اس خبر کی تردید آگئی کہ ”گھریلو صارفین کو دن میں تین بار گیس کی فراہمی کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔“ یہ تازہ بیا ن بالکل ان پروفیسر صاحبان کی پیشگوئیوں کی طرح ہے جن کے بیک وقت ایک سے زیادہ مطلب لئے جاسکتے ہیں۔گویا گیس تین با ربھی فراہم نہیں ہو گی یا بدستور اپنی مرضی سے آئے گی شکل دکھائے گی اور پھر روپوش ہو جائے گی اور یار لوگ غالب کی طرح کہتے ہی رہ جائیں گے۔
ہماری سادگی تھی التفات ناز پر مرنا
تیرا آنا نہ تھا، ظالم مگر تمہید جانے کی