غربت میں کمی؟

ہمارے وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وہ آ نے والی نسلوں کا سوچتے ہیں انتخابات جیتنے کے لئے مصنوعی ریلیف فراہم کرنے کے قائل نہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران ملک میں غربت کی شرح کم ہوئی ہے۔جس کی تصدیق ورلڈ بینک نے بھی کی ہے  مجھے معلوم ہے مہنگائی سے لوگ بہت پریشان ہیں، مہنگائی کی لہر کورونا کی طرح باہر سے آئی ہے  عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں مزید بڑھنے کا خدشہ ہے،جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے تاہم حکومت نے کورونا کو شکست دی ہے مہنگائی کو بھی شکست دیں گے۔عوام کے لئے بڑا پیکج لانے والے ہیں، حکومت نے مشکل حالات میں بڑے فیصلے کئے،ہماری کوشش رہی کہ ملک میں پائیدار ترقی ہو۔ انہوں نے کہا کہ اگر ترقی کو سڑکوں کی طوالت سے ناپا جائے گا تو مسلم لیگ (ن) کے دور میں 645 کلومیٹر جبکہ تحریک انصاف کے تین سالہ دور میں 1750 کلومیٹر سڑکیں بنائی گئی۔ 50 برس میں پہلی مرتبہ 3 بڑے ڈیمز بنائے جا رہے ہیں، اگلے 10 برس میں مزید 10 ڈیم بنائیں گے،وزیراعظم نے کہا کہ جب ہم نے درخت لگانے کے منصوبے متعارف کرائے تو ہمارا مذاق اڑایا گیا،لیکن دنیا اس منصوبے کی تعریف کر رہی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم نے موسمیاتی تبدیلی کے سربراہ اجلاس میں پاکستان کی مثال دی ہے۔ماضی میں جب آلو کی قیمت سو روپے سے تجاوز کرگئی تو کسی صحافی نے سابق وزیراعظم سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں آلو کا کیا بھاؤ چل رہا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ یہی کوئی پانچ روپے کلو ہوگی۔وزیراعظم عمران خان نے اگرچہ اعتراف کیا ہے کہ موجودہ دور میں مہنگائی بڑھنے سے عوام پریشان ہیں مگر شاید انہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ مہنگائی کی شرح میں تین سو فیصد تک اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے غربت کی لکیر سے نیچے کی سطح پر زندگی گذارنے والوں کی شرح 35فیصد سے بڑھ کر 52فیصد ہوگئی ہے۔ گویا بائیس کروڑ کی آبادی میں سے چودہ کروڑ لوگ غریب ہوچکے ہیں۔حکومت نے کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے بیروزگار ہونے والے محنت کشوں کی مالی مدد پر 144ارب روپے خرچ کئے۔ احساس کفالت پروگرام کے تحت نادار لوگوں کی مالی امداد کی جارہی ہے۔ مختلف شہروں میں لنگر خانے بھی کھولے گئے ہیں جہاں مسافروں اور بے سہارا لوگوں کو مفت میں کھانا اور رات بسر کرنے کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ کم آمدنی والے خاندانوں کو اشیائے خوردونوش سبسڈی ریٹ پر فراہم کرنیکا پروگرام بھی شروع کیا جارہا ہے۔