افغانستان میں تاریخی مارپڑنے اور وہاں سے راہ فرار اختیار کرنے کے بعد اب بھارت کسی نہ کسی طرح افغانستان میں اپنے کردارکی تلاش میں ہے اسی مقصد کے لئے اس نے دہلی ڈائیلاگ (قومی سلامتی کے مشیروں کے مذاکرات) کاانعقاد کیا، جس میں روس اور ایران کے علاوہ قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہوئے، یہ طے پایا ہے کہ افغانستان سے نہ تو دہشت گردی کی فنڈنگ ہو نہ اس کی سرزمین دہشت گردی کیلئے کسی طرح استعمال کی جائے‘علیحدگی پسند جنگجوؤں کو قابو میں رکھنے اور ڈرگ یعنی منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام میں تمام ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں افغانستان میں ایک ایسی نمائندہ حکومت تشکیل دی جائے جس میں تمام طبقوں اور فرقوں کی نمائندگی ہو اور وہ حکومت سب کے تحفظ کی ضامن ہو‘بچوں، عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کی بھی ضمانت دی جائے۔ افغانستان میں قیامِ امن کو یقینی بنانے میں تمام ممالک معاون ہوں گے مگر افغانستان کے داخلی معاملات میں کوئی ملک مداخلت نہیں کرے گا۔چین اور پاکستان کو بھی اس ڈائیلاگ میں شریک ہونے کی دعوت دی گئی تھی مگر پاکستان نے پہلے ہی انکار کردیا کہ وہ اس میں شریک نہیں‘قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے واضح کردیاتھا کہ امن عمل کو نقصان پہنچانے والے کبھی امن کے لئے کام نہیں کر سکتے، لہٰذا وہ رواں ماہ بھارت کے زیرِ اہتمام مجوزہ افغان کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔معید یوسف کاکہناتھاکہ مغربی دنیا کی طرح پاکستان کے پاس افغانستان کے ساتھ روابط ختم کرنے کاآپشن موجود نہیں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا ’میں سمجھتا ہوں کہ خطے کی رکاوٹیں آپ کے سامنے ہیں، اس پر بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک طرف بھارت ہے۔۔ بدقسمتی سے (اس کی وجہ سے) وہاں حکومت کا طرز عمل اور نظریہ، میں نہیں دیکھ رہا کہ یہ (امن) عمل نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے لئے کس طرح آگے بڑھے گا۔‘دوسری طرف چین نے عین وقت پر یہ کہہ دیا کہ اس کی پہلے کی مصروفیات اس کی شرکت میں مانع ہیں تاہم یہ حقیقت ہے کہ چین بھی بھارت کے افغانستان میں کسی قسم کے کردار کاحامی نہیں بھارت کو اس بھاگ دوڑ کی ضروت اس لئے پیش آئی کہ جب تک افغانستان میں طالبان برسر اقتدار نہیں آئے تھے ان کے ساتھ جو بات بھی ہوتی تھی اس میں بھارت کو شامل نہیں کیا جاتا تھا مگر اب جبکہ افغانستان میں ایک حکومت قائم ہے اور اس کے پاکستان کے ساتھ روابط بڑھ رہے ہیں تو بھارت کا زیادہ سرگرم ہونا فطری ہے کیونکہ پہلے ہی افغانستان میں اس کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ڈوب چکی ہے۔ بھارت کو یہ فکر بھی کھائے جارہی ہے کہ طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد ارد گرد کے ملکوں اور علاقوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اس طالبان حکومت کا کیا مستقبل ہوسکتا ہے جس کو بعض طاقتوں کے بقول افغانستان کے تمام طبقوں اور فرقوں کا اعتماد حاصل نہیں ہے؟ پاکستان تو اسی بات کو دہرا رہا ہے کہ افغانستان میں بھارت کا کردار ٹھیک نہیں رہا ہے اوریہ حقیقت بھی ہے کیونکہ بھارت نے ہر باریہ کوشش کی کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف بھرپور طریقے سے استعمال کیاجائے۔ دہلی مذاکرات کے ختم ہوتے ہی افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی پاکستان کے دورہ پر آئے یہ بھی بھارت کے لئے ایک واضح پیغام تھا امیر خان متقی نے دورہ پاکستان کے موقع پر جن خیالات کااظہار کیا ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی معاشرہ کابل سے کیا چاہتا ہے اور افغانستان کی طالبان حکومت اس کی توقعات کو پورا کرنے سے کیوں انکار کررہی ہے۔ ایک معاملہ خواتین کی ملازمت کا ہے۔ طالبان وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جب سے ان کی حکومت تشکیل پائی ہے نہ تو کسی خاتون کو ملازمت سے روکا گیا ہے نہ ہی کسی خاتون کو ملازمت سے برطرف کیا گیا ہے۔ لڑکیوں کے سکولوں میں تعلیم جاری نہ ہونے کے بارے میں ان کا کہنا تھاکہ لڑکیوں کی تعلیم کا جامع منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ لڑکیوں کے سکول کے بند ہونے کے سلسلے میں انہوں نے بتایا کہ دو لاکھ خواتین اساتذہ پیشہ تدریس سے وابستہ ہیں اور ان سب کو تنخواہیں دینی ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ ان کی تنخواہ ہم ادا کریں گے۔ ان دونوں باتوں سے ان الزامات کی تردید ہوتی ہے کہ طالبان خواتین کی ملازمت اور لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کے مخالف ہیں۔ ایک دوسرا معاملہ حکومت میں تمام طبقوں کو نمائندگی دینے کا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ”ان کی حکومت میں تمام طبقوں کی نمائندگی ہے۔“ رہی بات سیاسی مخالفین کو نمائندگی دینے کی تو ان کا موقف ہے کہ جو لوگ بیس برس تک ہمارے خلاف لڑتے رہے ہیں ان کو نئی حکومت میں کیسے شریک کیا جاسکتا ہے؟ طالبان وزیر خارجہ نے اس سلسلے میں ایک سوال بھی کیا کہ کیا جو بائیڈن اپنی حکومت میں ڈونالڈ ٹرمپ کو شامل کرسکتے ہیں؟ اسی طرح ان فوجیوں کی طالبان فوج میں شمولیت کا معاملہ بھی ہے جو اشرف غنی کی فوج میں شامل تھے مگر جنہوں نے آخری لمحے میں ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ کابل حکومت کا موقف ہے کہ اس کو ایک بہت مختصر فوج کی ضرورت ہے جس میں صرف مخلص، پر عزم اور محب وطن شامل ہوں گے گویا طالبان کی طرف سے بھارت میں منعقدہ کانفرنس کے اعلامیہ کا تفصیلی جواب اسی موقع پر دے دیاگیا اس وقت امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ البتہ پاکستان کا یہ اصرار رہا ہے کہ دنیا کو افغانستان سے مکمل قطع تعلق نہیں کرنا چاہئے کی آمد کے بعد سے ہی بھارت افغانستان کے حوالے سے الگ تھلگ سا پڑ گیاہے اور اب اس کی کوشش یہ ہے کہ کسی طرح وہ بھی افغانستان پر ہونے والی بات چیت میں اپنی ایک نشست مخصوص کر لے۔مبصرین کے مطابق بھارت اس معاملے میں ایک طرح سے تنہا ہو چکا ہے اور اگر اب کچھ نہیں کیا گیا تو پھراس کی پوزیشن بہت کمزور ہو جائے گی۔ طالبان کااعتماد حاصل کرنے کے لئے کانفرنس کے اعلامیے میں طالبان حکومت پر تنقید نہیں کی گئی۔ تاہم ایک جامع اور نمائندہ حکومت کے قیام پر زور دیا گیا۔مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام سے قبل بھارت نے باضابطہ طور پر اور عوامی اعلان کے ساتھ طالبان سے رابطہ قائم نہیں کیا تھا اب جب کہ حقانی نیٹ ورک کے سراج الدین حقانی کو طالبان حکومت کا عبوری وزیر داخلہ بنایا گیا ہے تو بھارت کو افغانستان کے معاملے میں تنہائی کا احساس ہو رہا ہے بھارت مخمصے میں ہے کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ وہ طالبان سے بات بھی کر رہا ہے اور اسے تسلیم بھی نہیں کر رہا ہے بھارت نے افغانستان میں اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کی ہے جس کے ثمرات سے وہ محروم ہونے کے لئے تیار نہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ دہلی اعلامیے میں خطے میں بنیاد پرستی، انتہا پسندی، علیحدگی پسندی اور منشیات کی سمگلنگ کے خلاف ’اجتماعی تعاون‘ پر زور دیا گیا ہے، لیکن روسی بیان میں ان مسائل پر ’اجتماعی تعاون‘ کا کوئی ذکر ہی نہیں بھارتی اعلامیے میں خطے میں بنیاد پرستی، انتہا پسندی، علیحدگی پسندی اور منشیات کی سمگلنگ کے خلاف ’اجتماعی تعاون‘ پر زور دیا گیا ہے، لیکن روسی بیان میں ان مسائل پر ’اجتماعی تعاون‘ کا کوئی ذکر ہی نہیں جو کہ ایک حیرت انگیز بات ہے۔ایک اور فرق خاصا واضح ہے، جس میں دہلی اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ وہ آنے والا سمٹ 2022 ء میں منعقد کریں گے، جبکہ دوسری جانب روسی بیان میں کسی ٹائم فریم کا عہد نہیں کیا گیا یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ بھارت کی افغانستان میں انٹر ی کی تازہ ترین کوشش بھی فی الوقت ناکام ہوچکی ہے۔