ٹھارہ نومبر دوہزاراکیس: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف (لأ اینڈ جسٹس) کے اجلاس میں شرکت کے لئے مدعو کئے گئے الیکشن کمیشن حکام نے بتایا کہ ”آئندہ عام انتخابات ’الیکٹرانک ووٹنگ‘ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی بھی بات فی الوقت یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔“ کمیٹی کے اراکین میں شامل نوازلیگ کا مؤقف ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے متعلق منظورشدہ قانون میں سقم موجود ہیں جیسا کہ مذکورہ قانون میں اِس بات کی گنجائش رکھی گئی ہے کہ روایتی طریقے (کاغذ کی پرچی) کے ذریعے بھی انتخابات کا انعقاد کیا جا سکتا ہے اور یوں قانون کہتا ہے کہ رائے دہی ایک سے زیادہ طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔ماضی (جولائی دوہزاراٹھارہ) کے عام انتخابات سے حاصل شدہ تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے جس میں ایک موقع پر جب انتخابی حلقوں میں ڈالے گئے ووٹوں کا کمپیوٹروں میں اندراج کیا جا رہا تھا تو پورا الیکٹرانک نظام مفلوج ہو گیا تھا جس کے باعث کامیاب و دیگر انتخابی اُمیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کے اعلانات کرنے میں تاخیر ہوئی اور یوں ”نیم ڈیجیٹل نظام“ کی غیرجانبداری پر سوال اُٹھانے والوں نے تاخیر کے کچھ اور ہی مطالب اخذ کئے جیسا کہ الیکٹرانک نظام کو جان بوجھ کر مفلوج کیا گیا تاکہ انتخابی نتائج کو تبدیل کیا جا سکے یعنی دوہزاراٹھارہ کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی! اور یہی اعتراض ’ووٹنگ مشینوں‘ پر کیا جا رہا ہے کہ جہاں ”نیم ڈیجیٹل“ نظام نہیں چل سکا وہاں کلی طور پر ووٹنگ مشینوں پر انحصار کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟پاکستان میں عام انتخابات سے متعلق 2 بنیادی حقائق ہیں۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ 9 مرتبہ ہوئے عام انتخابات (1977ء‘ 1988ء‘ 1990ء‘ 1993ء‘ 1997ء‘ 2002ء‘ 2008ء‘ 2013ء اور 2018ء میں سے کوئی ایک بھی ایسا انتخاب نہیں کہ جس کے نتائج پر دھاندلی ہونے کا الزام نہ لگا ہو اور دھاندلی کے اِس الزام (label) سے انتخابات کو پاک کرنے کا واحد طریقہ ’الیکٹرانک ووٹنگ‘ ہے۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ 9 مرتبہ ہوئے عام انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح نصف سے کم رہی جبکہ آخری دو الیکشنز میں نصف رجسٹرڈ ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا لیکن اگر مسترد ووٹوں کو نکال دیا جائے تو یہ بمشکل کل رجسٹرڈ ووٹوں کا نصف بنتے ہیں۔ تصور کریں کہ کاغذ کی پرچی اور اُس پرچی پر تصدیق کی مہریں ہونے کے باوجود بھی جب رائے دہی کے عمل میں ووٹ مسترد ہو رہے ہیں اور ووٹروں کی خواندگی کی سطح یہ ہو کہ اراکین اسمبلی کے مخصوص انتخابات میں بھی ووٹ مسترد ہو جاتے ہوں تو ایسی صورت میں سوائے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کوئی دوسری محفوظ صورت باقی نہیں رہ جاتی۔ صرف الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں ہی ایسا ذریعہ ہیں کہ اِن کی وساطت سے ڈالے گئے ووٹوں میں سے کوئی ایک بھی ضائع (مسترد) نہیں ہوتا اور یوں ہر ایک ووٹ (رائے) شمار ہوتی ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے اِس ”کارآمد“ پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر فیصلہ ساز اپنے انتخابی مفادات کی بجائے قومی اور انتخابات کے عمل کے مفاد کو اہمیت دیں تو اُن کی سمجھ میں الیکٹرانک ووٹنگ بھی آ جائے گی اور اِس کم خرچ طریقے میں پائی جانے والی شفافیت کی بدولت انتخابات کے فوری نتائج حاصل کرنا بھی ممکن ہو سکے گا۔ ووٹ کے حوالے سے آئین میں جس رازداری کا ذکر بطور حق آیا ہے اُس کا مقصد محدود کر کے سمجھا جا رہا ہے کہ کسی رائے دہندہ نے کسے ووٹ دیا ہے اِسے ظاہر نہ کیا جائے‘وقت ہے کہ الیکشن کمیشن حزب اختلاف کے سیاسی اعتراضات کی بجائے انتخابات کی شفافیت اور اِن کی ساکھ کے بارے میں زیادہ سوچے اور ماضی میں کی گئی اپنی اُن غلطیوں کی بھی اصلاح کرے جس کی وجہ سے عام انتخابات ملک سے بدعنوانی‘ تعصبات اور ’وی وی آئی پیز کلچر کے خاتمے کی بجائے اِس میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔