اُردو ادب میں ”علم ِبدیع“ پر عبور رکھنے والے لفظی معنیئ کلام سے نت نئے مطالب پیدا کرتے ہیں یعنی وہ ایسی اچھوتی بات کہتے ہیں جس سے عمومی جملے یا الفاظ کے نئے معنی اور زاویئے پیدا ہوں۔ معلم ’واحد سراج میر‘ بھی ایسی ہی نابغہئ روزگار شخصیت ہیں‘ جن کے ہاں الفاظ ہاتھ باندھے نظر آتے ہیں اُور اِن کا چناؤ کرتے ہوئے وہ عمومی (روایتی) اسلوب سے قطعی مختلف پہلوؤں کا احاطہ کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ہنر معمولی نہیں اور نہ ہی مشقت یا ریاضت سے سیکھا جا سکتا ہے۔ اُنیس نومبر (صبح آٹھ بجکر اٹھائیس منٹ) پر میر صاحب نے صبح بخیر کے اختتامیے کے ساتھ جو دعا ارسال کی وہ صرف معروف کلمہ نہیں بلکہ انسان کی تخلیق و ارتقا (کرہئ ارض پر جدوجہد) سے متعلق ایک بہت بڑی بحث کا نچوڑ ہے۔ میر ِمحترم نے لکھا ”اللہ (تعالیٰ) آپ کی زندگی کو بامقصد بنائے۔“ آج کی تاریخ میں اگر کہیں مادہ پرستی ملتی ہے یا انسان پریشانیوں‘ مشکلات اور مسائل میں مبتلا نظر آتے ہیں تو اِس کا مرکزی خیال یہی ہے کہ اِس نے یا تو اپنے لئے مقصد کا تعین کر رکھا ہے یا پھر دوسروں کی دیکھا دیکھی کسی مقصد کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ کیا زندگی اِس حالت و احساس کے ساتھ نہیں گزر سکتی کہ اِس کا زندگی کے بغیر کوئی مقصد نہ ہو؟ زندگی کو بس زندگی کے طور پر بسر کیا جائے۔ اِس سے لطف اُٹھاتے ہوئے دوسروں کی زندگی میں مداخلت کئے بغیر سکون کا باعث بنا جائے؟ خرابیوں کا مجموعہ وہ نظام ِتعلیم اور دانشوروں کے وہ عمومی رویئے بھی ہیں جو زندگی کو عرفاً ”بامقصد“ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اِس کی مقصدیت سے ہونے والے نقصانات کو شمار نہیں کرتے۔ فلسفے سے شاہ نشین سے اُتر کر پائین ِباغ ِعوام میں بات کی جائے اور انسانی عقل کیلئے کشش کا باعث مصدقہ سائنسی علوم (مثالوں) سے ’زندگی اور اِس کے مقصد‘ کو سمجھنے کی کوشش میں سائنس اور قبل اسلام انسان کے مقصد و ارتقا کے تصورات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ معروف برطانوی ماہر حیاتیات چارلس ڈارون نے ’انسانی زندگی کے آغاز و اِرتقا‘ سے متعلق متنازعہ نظریہ (تصور) پیش کیا‘ جو ’قدرت کے انتخاب یعنی زندگی کے طبیعی انتخاب (نیچرل سیلیکشن)‘ کے اصول پر انسانی زندگی کے ارتقائی مراحل کا احاطہ کرتا ہے۔ عمومی تصور یہی ہے کہ ڈارون نے انسان کے وجود سے متعلق جو نظریہ پیش کیا‘ یہ اِس سلسلے (اپنی نوعیت) کا پہلا تصور تھا جو درست نہیں بلکہ اِس سے ہزاروں سال قبل انسان کی وجہئ تخلیق کے بارے نظریات پیش ہو چکے تھے۔ ڈارون کے بقول ”کسی ایک قسم (نوع) کے جانور اپنی خوراک‘ رہائش‘ اور افزائشِ نسل کیلئے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں‘ یہ مقابلہ (تنازع البقا) ہمہ وقت جاری رہتا ہے جس میں ’بہترین‘ کی بقا یعنی اَفزائشِ نسل ہوتی ہے اور صرف افزائش ِنسل ہی نہیں بلکہ اس طرح ان کی اچھی خصوصیات اگلی نسل میں منتقل ہوتی ہیں“ یہی مقام ہے جہاں ٹھہرنا ہے۔ ڈارون کہتا ہے کہ جانداروں کی خصوصیات آنے والوں نسلوں میں منتقل ہوتی ہیں لیکن یہ تصور ڈارون سے 15 ہزار سال قدیم نظریات‘ میں یہ تصور اِس اضافے کے ساتھ تحریر ملتا ہے کہ اِنسانوں میں ایک الگ قسم کی ’اِرتقائی یاداشت (حافظے کی خصوصیت)‘ بھی پائی جاتی ہے جو اپنے اندر محفوظ و موجود ’ارتقائی یاداشت‘ تک رسائی حاصل کرتا ہے تو اُس پر الگ دنیا اور حقیقت آشکار ہوتی ہے۔ اِسی خود ”خودآگہی“ کی جانب علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں بھی اشارہ ملتا ہے ”اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی …… تو اگر میرا نہیں بنتا‘ نہ بن‘ اپنا تو بن۔“قدیم نظریات میں انسان کی جن 9 حالتوں کا ذکر ملتا ہے‘ پندرہ ہزار سال بعد حیاتیاتی سائنسدان ڈارون نے اُسی کے بارے میں نظریہ پیش کیا اور نہ صرف داد وصول کی بلکہ اُن کے نظریئے کو آج بھی دریافت مانا جاتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے ارتقائی سفر جو بھی رہا‘ اُس مشقت سے گزرتے ہوئے انسان نے بالآخر وہ مقام حاصل کر لیا ہے جہاں اِس کی ساخت و ہیت میں اب تبدیلی نہیں ہو گی اُور یہ چاہے کچھ بھی کرے‘ کچھ بھی کھائے‘ پیئے لیکن یہ انسان ہی رہے گا تو وقت ہے کہ یہ اپنا مقصد یعنی زندگی کو کسی دوسرے مقصد کے ترازو میں نہ تولے اور نہ ہی اِس کے مقصدیت کی تلاش کرتا پڑے بلکہ حقیقت کی تلاش میں اِسے اپنے ہی اندر موجود (پنہاں) حیات و بقا کو کریدنا ہے۔ یہی منزل ہے کہ کسی مقصد کی خواہش نہ کرتے ہوئے خودشناس بنے۔ یہی خودی ہے۔ یہی خوداحتسابی ہے۔ جہاں تک ڈارون کے نظریات کا تعلق ہے تو ان میں زیادہ تر کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ان کی بنیاد کمزور ہے اور اسے متنازعہ بھی کہا گیا ہے اس لئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ قدیم ہوں یا جدید وہی نظریات قبولیت حاصل کرتے ہیں جو عملی طور پر ثابت ہو جائیں اور ڈارون کے نظریات میں سے اکثر جھوٹے اور متنازعہ نظریئے کے طور پر سامنے آئے ہیں۔