اپنانقطہ نظر رکھنے کاہر شہری کو جمہوری حق حاصل ہے لیکن کسی پر زبردستی اپنا نقطہ نظر اور نظریہ تھوپنے کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔یہ حقیقت کسی بھی شک و شبے سے بالا تر ہے کہ اسلام توازن، رواداری اور امن کی تعلیمات دیتا ہے۔ انتہاپسندی، عدم برداشت اوررواداری کا فقدان منفی سوچ کی پیداوار ہیں۔ جب تک منفی سوچ کو جڑوں سے ختم کرنے کی کوئی جامع اور ٹھوس حکمت عملی وضع نہیں کی جاتی۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی سے چھٹکارہ پانا مشکل ہے۔کسی بھی معاشرے میں پروان چڑھنے والے رویوں پر اگر نظر رکھی جائے اور اصلاح معاشرہ کے عمل کوتسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائے تو ایسے مسائل سے نمٹنا آسان ہوجاتا ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ صبر و تحمل اور برداشت کو زندگی کا ایسا حصہ بنایا جائے کہ اس کے اثرات عملی زندگی میں نظر آنے لگیں اور یہ تو ایک اٹل حقیقت ہے کہ یہ سب کچھ محض تعلیم سے نہیں ہوتا بلکہ تربیت کا اس میں ہم کردار ہے۔ ہمارے ہاں جو منفی رویے پروان چڑھتے ہیں تو اس کی وجہ تعلیم کی نہیں بلکہ تربیت کی کمی ہے۔ اگر شروع سے ہی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر توجہ مرکوز کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایسے مشکلات اور مسائل جو بعد میں گھمبیر صورت اختیار کر جاتے ہیں شروع سے ہی ختم ہو سکیں اور یہ کسی ایک دور کی بات نہیں بلکہ ماضی میں جتنی بھی حکومتیں گزری ہیں یہ کمی ہر دور میں محسوس کی گئی ہے کہ معاشرتی تربیت کے پہلو کو نظر انداز کیا گیا ہے جس کے دور رس اثرات سامنے آئے ہیں اور آج جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں یہ اس کمی کانتیجہ ہے۔اسی تربیت سے ہی تحمل و بردباری معاشرے میں آسکتی ہے۔ملکی آئین اور قانون کو تسلیم کرنے کی شرط پر معافی دینے کے اعلان پر مثبت رد عمل سامنے آیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں طاقت، ڈنڈے اور اسلحہ کے زورسے کوئی مسئلہ آج تک حل نہیں ہوسکا۔ دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت امریکہ کو اپنی بہترین تربیت یافتہ فوج، جدید ترین ہتھیاروں اور تباہ کن جنگی طیاروں کی مدد کے باوجود بیس سال تک بے مقصد جنگ کے بعد افغانستان سے پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ اور 2001میں جن لوگوں کو نائن الیون کے ذمہ داروں کا سہولت کار قرار دے کر انہیں ملیامیٹ کرنے کیلئے فوجی کاروائی شروع کی گئی تھی۔ انہی لوگوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر امن کے قیام اور اپنے فوجیوں کی بحفاظت واپسی کی بھیک مانگنی پڑی۔ اس کے مقابلے میں اگر پاکستان دہشت گردی اور انتہاپسندی سے توبہ کرکے قومی دھارے میں شامل ہونے کی شرط پر اپنے لوگوں کو معافی دیتا ہے تو یہ قیمت امن کی بحالی سے زیادہ نہیں ہے۔ افغانستان میں امن قائم ہونے سے اب خطے میں مربوط معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کا اچھا موقع ہے تاہم اسکے لئے ضروری ہے کہ پائیدار امن نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے میں ہو تاکہ کسی کو بھی دوبارہ دہشت گردی کو فروغ دینے کا موقع نہ ملے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے مشرقی پڑوسی کا رویہ امن دشمن ہے جس کا توڑ یہی ہے کہ ناراض لوگوں کو قومی دھارے میں لایا جائے۔ہمارے سیکورٹی اداروں نے عسکریت پسندی کی کمر توڑ دی ہے اور وہ کوئی بڑی منظم کاروائی کے قابل نہیں تاہم اکا دکا واقعات کاخاتمہ بھی ضروری ہے تاکہ معاشی مضبوطی اور اقتصادی ترقی پر بھرپور توجہ مرکوز کی جاسکے۔