پشاور کہانی: نظارہئ نگاہ کا عنواں بدل گیا

بارشیں کم ہونے کی وجہ سے پشاور پر گردوغبار کسی چھتری کی طرح سایہ کئے رہتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں جیسے عالمی مسئلے کی وجہ سے بھی پشاور میں بارشوں کا تناسب کم ہوا ہے۔ پشاور میں سال کے دوران اوسطاً 71 دن بارش ہوا کرتی تھی جس میں جنوری کے 3‘ فروری 5‘ مارچ 7‘ اپریل 6‘ مئی 4‘ جون 5‘ جولائی 13‘ اگست 14‘ ستمبر 7‘ اکتوبر 3‘ نومبر 2 اور دسمبر میں اوسطاً 2 دن یا اِس کے مساوی اوقات میں بارش ہوا کرتی تھی لیکن بارش کا یہ تناسب اور مقدر دونوں ہی غیرمعمولی طور پر کم ہو رہے ہیں! یادش بخیر وہ سردیاں اور وہ موسم بہار جب پشاور میں ہفتہ دس دن بارش مسلسل بارشیں ہوا کرتی تھیں لیکن اب صورتحال قطعی مختلف ہے کہ بارش کیلئے دعائیں تو کی جاتی ہیں لیکن اُن ماحول دشمن عادات اور معمولات کی اصلاح نہیں کی جاتی‘ جن کی وجہ سے بارشیں روٹھ گئی ہیں۔ پشاور کی صرف صنعتی بستیاں ہی یہاں کی فضائی آلودگی کیلئے تن تنہا ذمہ دار نہیں بلکہ پرانی بسوں اور گاڑیوں سے اگلنے والا دھواں اور شور ’بدترین فضائی آلودگی‘ کیلئے ذمہ دار محرکات ہیں اور اِن گاڑیوں کے ماحول دوست ہونے کی اسناد (فٹنس سرٹیفیکٹس) جاری کرنے کا نظام و قواعد موجود ہیں لیکن اِن پر خاطرخواہ سختی سے عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آتا۔ عمومی مشاہدہ ہے کہ بڑے انجن والی کمرشل گاڑیوں سے دھویں کے مضر ذرات ہوا میں جانے سے روکنے کیلئے فلٹر یا تو ناکارہ ہو چکے ہوتے ہیں یا پھر یہ لگائے ہی نہیں گئے ہوتے‘ جس کے باعث دھواں اُس تمام عرصے اور راستے ہوا میں شامل ہوتا رہتا جہاں جہاں سے یہ گاڑیاں گزرتی ہیں۔ نجی شعبے کی ملکیت پبلک ٹرانسپورٹ اور آٹو رکشہ یا مال برداری کیلئے استعمال ہونے والے ٹرک‘ ٹریلرز فضائی آلودگی کا بنیادی ذریعہ (سورس) ہیں۔اس حوالے سے غفلت برتنے اور اپنی بنیادی ذمہ داری کو کاغذی کاروائی سے زیادہ سرانجام نہیں د ینے والوں کیلئے سزأ و جزأ کا پیمانہ کون مقرر کرے گا۔ فضاء آلودگی کم کرنے کیلئے 8 اصولوں کے مطابق 1: کم مسافت کیلئے گاڑیوں کی بجائے پیدل یا سائیکل استعمال کی جائیں۔ 2: روزمرہ معمول کی آمدورفت کیلئے انفرادی گاڑیوں کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کیا جائے۔ 3: کم فاصلوں کی آمدورفت کیلئے گاڑیوں کا استعمال نہ کیا جائے اور گاڑیوں کے انجن درست (ماحول دوست) رکھے جائیں۔ 4: دھواں اگلنے والے ایندھن کی بجائے کم دھواں دار ایندھن اور متبادل توانائی استعمال کی جائے۔ 5: کوڑاکرکٹ (ٹھوس گندگی) یا فصلوں کی باقیات نذرآتش کرنے کی بجائے اُنہیں دفن کر تلف کیا جائے۔ کوڑا کرکٹ تلفی کیلئے حکومتی اداروں سے تعاون کیا جائے۔ 6: درختوں اور سبزہ زاروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ 7: صنعتوں اور کارخانوں سے خارج ہونے والے دھویں اور استعمال شدہ خام مال کی باقیات تلف کرنے کیلئے ماحولیاتی قواعد پر عمل درآمد کیا جائے اور 8: ماحولیاتی آلودگی سے متعلق عوام کے شعور میں اضافے کیلئے تدریسی نصابی کتب میں مضامین شامل کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ کے ذریعے ماحول دوست مہمات چلائی جائیں۔