روایت ہے کہ حضرت علی بن ابی طالبؓ ایک دن نماز کیلئے ایک مسجد کے سامنے رکے تو گھوڑا باہر باندھ دیا ایک شخص جو قریب موجود تھا حضرت علیؓ نے اسے گھوڑے کا خیال رکھنے کا کہا اور خود مسجد کے اندر تشریف لے گئے نماز سے فارغ ہو کر واپس نکلے تو گھوڑا تو اسی جگہ بندھا ہوا تھا مگر اسکی زین غائب تھی ساتھ ہی وہ شخص بھی غائب تھا جس کو حضرت علیؓ نے گھوڑے کا خیال رکھنے کیلئے کہا تھا۔ حضرت علیؓ قریبی بازار گئے تاکہ گھوڑے کیلئے دوسری زین خرید سکیں۔ اتفاق سے ایک دوکان میں انہیں اپنا ہی زین نظر آیا دوکاندار سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ ابھی کچھ دیر قبل ہی ایک شخص نے اسے یہ زین دو درہم(چند روایات میں ہے پانچ درہم) کے عوض بیچا ہے حضرت علیؓ نے دکاندار کو سارا قصہ سنایا اور ایک افسوس کی آہ نکالتے ہوئے کہا کہ مسجد میں داخل ہوتے وقت ہی انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ باہر آکر وہ اس شخص کو دو درہم(یا پانچ درہم) مزدوری یا انعام دینگے یہ دو درہم اسکی قسمت میں تھے لیکن اس نے انہی درہم کیلئے غلط رستے کا انتخاب کیا حقیقت تو یہی ہے کہ جو چیز ہماری قسمت میں ہے وہ ہمیں لازمی مل کر رہے گی اب اس کیلئے بندہ جلدی کرتے ہوئے غلط اور حرام رستہ اختیار کرتا ہے یا صبر اور شکر کرتے ہوئے صرف حلال طریقے سے اس کیلئے محنت کرتا ہے اور یہ نتیجہ خدا پر چھوڑتا ہے کہ کب اسکو وہ چیز ملتی ہے یہ بات تو سب کو علم ہے کہ کسی کو بھی وقت سے پہلے اور قسمت سے زیادہ نہیں ملتا جو لوگ زیادہ پیسے جائیداد‘ پرتعیش زندگی‘ گاڑیوں کیلئے حرام رستہ اختیار کرتے ہیں وہ اس دلدل میں پھنستے جاتے ہیں حرام کا پیسہ اور جائیداد حرام میں ہی استعمال ہوتی ہے بظاہر تو سب کچھ ٹھیک نظر آتا ہے مگر اندرونی سکون‘ گھر اور دوستوں کے اندر پیار و محبت‘ عزت‘ صحت اور دوسری نعمتیں ختم ہونا شروع ہو جاتی ہیں جتنا زیادہ حرام کمایا جاتا ہے اتنا ہی بے سکونی اور مشکلات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے سامنے تو چند لوگ عزت کرتے ہیں مگر محافل میں انکی چوری‘ بدمعاشی‘ ظلم‘ بدعنوانی اور منافقت ہی زیر بحث رہتی ہے گھروں میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہوتی جاتی ہے ڈاکٹر دوائیوں کا خرچہ بھی بڑھ جاتا ہے نہ لالچ ختم ہوتی ہے نہ ہی مشکلات‘ دوسری طرف حلال کمانے اور اپنے حصہ پر صبر کرنے اور جو کچھ انکو خدا کی طرف سے ملا ہے ان پر صبر کرنے والے ہمیشہ معاشرے میں عزت اور محبت کماتے ہیں رات کو بغیر گولی کے ان کو نیند آجاتی ہے گھروں اور دوستوں میں انکی عزت اور محبت قائم رہتی ہے چونکہ رزق کا ذمہ خدا نے لیا ہے اسلئے امیر و غریب دونوں پیٹ بھر کے کھاتے ہیں جو لوگ شکر ادا کرتے ہیں ان کا رزق بھی فراخ ہوتا ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ آزمائش بھی زندگی میں اچھے لوگوں پرآ تے ہیں چند ماہ یا چند سال سختی کے بھی آتے ہیں جن میں کچھ لوگ بہک کر غلط رستے کا انتخاب کرتے ہیں مگر کچھ لوگ ثابت قدمی سے خدا کا شکر ادا کرکے حالات بہتر ہونے کی دعا کرتے جاتے ہیں۔ آزمائش ان کو خدا کو اور زیادہ یاد کرنے اور بندوں کے حقوق مزید بہتر انداز میں ادا کرنے کاموقع دیتی ہے حلال کمانے والے ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھتے بلکہ اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہیں غلط رستے کا انتخاب کرنے والوں کو بھی خدا صلاحیت دیتا ہے توبہ کرنے کی‘ اپنا رستہ تبدیل کرنے کی‘زیادہ بہتر زندگی گزارنا پیسہ کمانا‘ جائیداد بنانا‘ بڑی گاڑیوں میں گھومنا ہر کسی کا حق ہے البتہ اسکے لئے جائز اور حلال کی شرط سب سے پہلے ہے ساتھ ہی یہ بھی شرط ہے کہ اس میں کسی کی دل آزاری نہ ہو کسی کا حق نہ تلف ہو ایسے لوگ اپنے سے غریب رشتہ داروں دوستوں اور غرباء ومساکین کے حقوق کا بھی خیال رکھتے ہیں اور جو صرف نمودونمائش کی بجائے صرف خدا کی رضا کیلئے دوسروں کا بھلا چاہتے ہیں اور اس کیلئے اقدامات کرتے ہیں خدا انکی دنیا و آخرت دونوں بہتر بناتا ہے۔