تنقید:تنقیدی جائزہ

ملک گیر سطح پر علمی و ادبی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے چند ماہ قبل (جون دوہزاراکیس) میں بنائی ”قومی ادبی مجلس“ کے اراکین کی حلف برادری منعقد ہوئی۔ اِس موقع پر 36 رکنی نومنتخب کابینہ اراکین نے جن 2 بنیادی نکات پر اتفاق کیا وہ یہ تھے کہ ’تنقیدی سوچ‘ اختیار کی جائے گی تاکہ علم و ادب اور طرزحکمرانی کے شعبے کو نئی بلندیوں سے روشناس کرایا جا سکے۔ دوسرا ہدف ’ثقافتی سرگرمیوں‘ کے فروغ کا مقرر کیا گیا ہے جس کے ذریعے ایک ایسے معاشرے کے قیام کیلئے کوششوں پر اتفاق سامنے آیا‘ جس سے سماج میں رواداری بڑھے اور عدم برداشت میں کمی آئے اور یہ دونوں اہداف اپنی جگہ اہم ہیں‘ جن کے لئے کسی ’قومی ادبی مجلس‘ کا پلیٹ فارم کس قدر مؤثر (کارگر) ثابت ہوگا‘ یہ بہرحال ایک الگ موضوع ہے‘ جس کا دانستہ تنقیدی جائزہ نہیں لیا جا رہا۔ قابل ذکر ہے کہ تقریب میں شرکت کیلئے خیبرپختونخوا کے مختلف حصوں کے ساتھ کراچی‘ کوئٹہ‘ اسلام آباد اور اٹک سے حلف برادری کی تقریب میں وفود شریک ہوئے۔قومی ادبی مجلس کے اہداف واضح لیکن لائحہ عمل غیرواضح ہے جسے سمجھنے کیلئے اِس کی رونمائی کے موقع پر سامنے آنے والا اتفاق رائے ہے جس کے مفہوم و معانی گہرے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ کہنے کو تو تنقید کا سرمایہ بہت کچھ ہے لیکن یہ سرمایہ اندر سے کھوکھلا ہے۔ ”تنقید کی عالمی تاریخ“ میں نقادوں کی لمبی چوڑی فہرست ملتی ہے جس میں ایسے بزرگ‘ نامی گرامی (مشہور) نقاد جو گزشتہ صدیوں میں تنقید کے متعلق غوروفکر کرتے رہے ہیں۔ اس لمبی‘ چوڑی فہرست کا ایک لمبا چوڑا ضمیمہ بھی ممکن ہے لیکن کہنا پڑتا ہے کہ کام کی باتیں‘ وزن‘ قدر و قیمت رکھنے والی باتیں بہت کم ہیں۔ تنقید کیا ہے؟ کچھ قیاس آرائی‘ بہت ساری تنبیہیں‘ کئی الگ الگ فقرے‘ کچھ روشن اندازے‘ بہت کچھ سخن آرائی اور شاعری‘ بے انتہا افراتفری‘ کافی تحکمات‘ تعصب‘ خبط اور من کی موج‘ انہیں چیزوں پر موجودہ تنقید کی بنیاد ہے۔ دوسری بات قوت تنقید سے متعلق ہے۔ اس کی اہمیت‘ مقصد اور میدان ِعمل کے بارے تصورات ہیں اور اِس پہلو پر بھی غور کرنا ہے کہ تنقید نے انسانی تہذیب اور ثقافت کی ترقی میں کتنا حصہ لیا ہے؟ شخصی اور سماجی دماغ اور زندگی کو سدھارنے میں تنقید کی کیا قیمت ہے؟ آگے بڑھنے سے پہلے اِن گھتیوں کو سلجھانا ضروری ہے کیونکہ یہ مسئلے نئے نہیں۔ بظاہر معمولی لیکن ان امور کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ تنقید غیرمتعلقہ نہیں بلکہ علم و ادب ہو یا سماجی ترقی اور طرز حکمرانی‘ تنقید سانس کی طرح ضروری ہوتی ہے۔ یہ فطرت کی گراں قدر ودیعت ہے۔ بصارت اور نطق کی طرح اہم ہے بلکہ شاید اِن دونوں سے تنقید کی قدر و قیمت زیادہ ہے۔ ہم گردوپیش کی چیزوں کو دیکھتے ہیں‘ ہم ایک دوسرے سے بول چال کرتے ہیں لیکن اس دیکھنے‘ اس بول چال کو معمولی بات سمجھتے ہیں اور اس کی اہمیت‘ اس کی قدروقیمت کا ہم صحیح اندازہ نہیں کرتے۔ یہ تو کہنے کی شاید ضرورت نہیں کہ یہ چیزیں کتنی ضروری ہیں۔ اگر ہم دیکھنے اور بولنے سے معذور ہو جائیں تو پھر زندگی میں کیا رکھا ہے؟ اکثر لوگوں کو اپنی پسند اور ناپسند کے بارے میں وجوہات علم نہیں ہوتیں۔ وہ کام تو کر رہے ہوتے ہیں لیکن اُن کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ بچوں میں بھی قوت تنقید ہوتی ہے لیکن اُس کی زبان نہیں ہوتی اور اِس گونگی تنقید کی وجہ سے وہ کسی چیز کو ناپسند کرتے ہوئے ٹھکرا دیتے ہیں۔ بڑوں کا بھی اکثر یہی حال دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہ بھی اپنی پسند و ناپسند کی کوئی معقول وجہ نہیں بتا سکتے۔ یہ بھی کسی چیز کو پسند تو کرتے ہیں اور کسی کو ناپسند لیکن بتا نہیں سکتے کہ کوئی چیز پسند کیوں اور ناپسند کیوں۔ ہمارے نقاد بھی باتیں تو بہت بناتے ہیں‘ اصول اور نقطہئ نظر کے حوالے سے دلائل بھی دیتے ہیں اور کچھ ایسے الفاظ اور فقروں کو کام میں لاتے ہیں کہ پڑھنے اور سننے والے مرعوب ہو جائیں لیکن غور کرنے سے ان الفاظ اور فقروں کا بھرم کھل جاتا ہے اور یہ باتیں بالکل کھوکھلی معلوم ہوتی ہیں! تیسری اہم بات یہ ہے کہ تنقید کے ذریعے خیر کی راہیں تلاش کرنے کیلئے نکل کھڑے ہونے سے پہلے عہد ضروری ہے۔ وفاداری ضروری ہے لیکن یہ وفاداری‘ عہدے اور مالی وسائل فراہم کرنے والوں کے ساتھ نہیں بلکہ انسانیت کے ساتھ ہونی چاہئے۔ وہ انسانیت جو اپنا جلوہ الگ الگ رنگ میں دکھاتی ہے۔ انسانیت نے اپنے لئے بہت سے عالیشان محل بنائے ہیں اور تنقید ہمیں تنبیہ (خبردار) کرتی ہے کہ ہم کسی ایک محل میں رہ کر اِسے ساری دنیا نہ سمجھ لیں۔ یہ تنقید کی عطا ہے کہ ہم وطن‘ نسل‘ ماحول‘ زبان‘ قوم‘ ذاتی خصوصیات و تعصبات کی تنگ نظری سے نجات حاصل کر لیتے ہیں اور نجات حاصل کرتے ہوئے اپنی روح کو انسانیت کی روح میں جذب کرکے سارے محلوں کی سیر کر سکتے ہیں۔ تنقید تلقین بھی کرتی ہے کہ ہم انسانیت کیلئے ایک عالی شان محل تعمیر کریں جس میں سارے جھگڑے فنا ہو جائیں اور انسانیت کامل آسودگی کی سانس لے سکے۔ اہل فکرونظر متوجہ ہوں کہ آج معاشرے کو جس ذہنی سکون اور شعوری و فکری رہنمائی کی ضرورت ہے اُس کیلئے علمی ادبی اور ثقافتی تنظیمیں انتہائی کلیدی (اہم) کردار ادا کر سکتی ہیں لیکن ایسا کرنے کیلئے انہیں اپنی ذات کی نفی کرنا ہوگا‘ جس کے بغیر زبانی جمع خرچ سے ”اصلاح ِاحوال“ ممکن نہیں! ”سوچ اپنی ذات تک محدود ہے …… ذہن کی کیا یہ تباہی کچھ نہیں (طاہر عظیم۔)“