قانون کے تحت الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کی سربراہی میں تکنیکی کمیٹی کو آزادانہ و منصفانہ عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق قانون و قواعد اختیار دیتا ہے کہ یہ کسی بھی طریقہئ کار یا ٹیکنالوجی کا جائزہ لیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ کے عالمی معیار‘ بہترین طریقوں کی نشاندہی کریں۔ اِس کے کام کاج کے دائرہ کار‘ اِس بارے قواعد و حکمت عملی‘ مشین کی بڑے پیمانے پر تیاری‘ تکنیکی اور عملی جانچ پڑتال (امتحان و آزمائش) کے بعد حتمی لائحہ عمل تیار کریں اور اِس کوشش و محنت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ عام انتخابات کی شفافیت اور اِس کی ساکھ پر حرف نہ آئے چونکہ عام انتخابات کے عمل کو الیکشن کمیشن سے زیادہ کوئی نہیں سمجھتا‘ اِس لئے مذکورہ تینوں کمیٹیاں الگ الگ زاوئیوں سے اور قانون کے اندر رہتے ہوئے اپنی اپنی تجاویز مرتب کریں گی‘ جنہیں اجتماعی شکل میں قومی فیصلہ سازوں کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اگرچہ تینوں کمیٹیاں ہی اہم ہیں لیکن ایڈیشنل سیکرٹری (ایڈمن) کی سربراہی میں قائم کمیٹی جو الیکٹرانک ووٹنگ کے مجموعی عملی خاکے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حق دینے سے متعلق مالی امور (اخراجات وغیرہ) اور اِس کے اثرات کا جائزہ لے گی‘ اُس کی تحقیق اور سفارشات پر سبھی کی نظریں ہوں گی۔ یہ کمیٹی پائلٹ ٹیسٹنگ اور ان کے استعمال کے طریقہ کار سے متعلق بھی تجاویز پیش کرے گی اور الیکشن کمیشن کے مالی وسائل (بجٹ) کو مدنظر رکھتے ہوئے مختصر اور طویل مدتی بنیادوں پر ای وی ایمز مشینوں کو ذخیرہ (سٹور) کرنے و دیگر متعلقہ امور کے بارے غوروخوض کریگی جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے لئے قائم کئے گئے پولنگ سٹیشنوں اور اِن پولنگ سٹیشنوں میں پولنگ بوتھ کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ قومی عام انتخابات کیلئے ’نو سے دس لاکھ‘ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں درکار ہوں گی لیکن اگر انتخابات سے قبل مردم شماری کی جاتی ہے یا انتخابی حلقوں کو ازسرنو متعین کیا جاتا ہے تو مشینوں کی درکار تعداد (نو سے دس لاکھ) میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ روایتی طور پر (کاغذ کی پرچی) رائے دہی (ووٹنگ) کے عمل پر تیس ارب روپے جبکہ الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے انتخابات پر ساٹھ ارب خرچ آئے گا لیکن یہ خرچ ایک مرتبہ کا ہے‘ جس کے بعد پولنگ کے اخراجات‘ جن میں ووٹوں کی چھپائی بڑا خرچ ہے بار بار نہیں کرنا پڑیں گے اور یوں چند انتخابات کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی قیمت وصول ہو جائے گی۔ اگرچہ یہ پہلو اور تصور وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کے فیصلہ سازوں کے سامنے زیرغور نہیں لیکن الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر اُٹھنے والے تیس ارب کے اضافی اخراجات سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن اور انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لینے والوں کیلئے مقررہ شرح فیس سے بھی پورے کئے جا سکتے ہیں۔ وہ انتخابی اُمیدوار جو اپنی مہمات پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ اخراجات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہیں اگر اُن کیلئے انتخابات میں اخراجات کی مقررہ حد میں اضافہ کرتے ہوئے اِن اخراجات پر ایک خاص شرح سے ٹیکس کا نفاذ کر دیا جائے تو اِس سے بھی الیکشن کمیشن کی آمدنی میں اضافہ ممکن ہے۔ عام انتخابات کے موقع پر مختلف ذمہ داریوں کیلئے جن سرکاری ملازمین یا دیگر افراد کو وقتی خدمات کے بدلے خصوصی ادائیگیاں کی جاتی ہیں لیکن الیکشن کمیشن کا پچاس فیصد سے زائد ایسا مستقل عملہ موجود ہے جن کی بھی دیگر افرادی ضرورت کے طور پر خدمات حاصل کر لی جائیں۔ سرکاری محکموں میں کفایت شعاری کرتے ہوئے وسائل کی بچت کے بارے بھی غوروخوض ہونا چاہئے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے بنائی گئیں تین کمیٹیاں پاکستان کے اندر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں جبکہ بیرون ملک پاکستانیوں کیلئے انٹرنیٹ کے ذریعے اپنا حق رائے دہی کے استعمال بارے غوروخوض کریں گی جبکہ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ پاکستان کے اندر بھی انٹرنیٹ کے ذریعے حق رائے دہی استعمال کرنے یعنی ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم کرنی چاہئے۔ ایسا کرنا اِس لئے بھی ضروری ہے کہ کورونا وبا جلد ختم ہونے والی نہیں اور آئندہ عام انتخابات کے موقع پر کورونا وبا کی صورتحال کیا ہوگی‘ اِس بارے میں کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا البتہ یورپی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جہاں کورونا وبا کم ہونے کے بعد دوبارہ پھیل گئی ہے۔ بہتر یہی ہوگا کہ آئندہ عام انتخابات کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے انتخابی مراکز پر رش کم سے کم رکھنے پر بھی غور ہو جبکہ ایسا کرنے سے قیمتی مالی وسائل کی بچت بھی ہوگی۔