سردی کی آمد کے ساتھ ہی پٹرولیم ڈویژن نے ملک بھر میں نئے گیس کنکشن دینے پر فوری طور پر پابندی عائد کر تے ہوئے گیس کمپنیوں کو ہدایات جاری کردیں،پٹرولیم ڈویژن نے سوئی نادرن کو نئے گیس ڈیمانڈ نوٹس اور ارجنٹ فیس کنکشن کے نوٹس جاری کرنے سے روک دیا ہے حالانکہ اوگرا کی ہدایات کی روشنی میں سوئی نادرن ارجنٹ فیس پر گیس کنکشن روکنے کی مجاز نہیں ہے۔کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے گھریلو صارفین کے لئے گیس لوڈ مینجمنٹ پلان پر عملدرآمد سے روکتے ہوئے بلا تعطل گیس سپلائی کی ہدایت کی تھی دوسری جانب وزارت توانائی کا کہنا ہے کہ ایل این جی کی قیمتوں میں اضافے اور سردیوں میں ہونے والے گیس بحران کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے، گھریلو سطح پر گیس کی مانگ بڑھ رہی ہے،ملک میں گیس کا کوئی بحران نہیں۔ماضی میں روس کی ایک بلیک لسٹ کمپنی کے ساتھ ایل این جی کی خرید و فروخت کا معاہدہ کیا گیا تھا، یہ معاملہ روسی حکام کے سامنے اٹھایا گیا ہے، ایک دو ماہ میں یہ مسئلہ حل ہوجائیگا۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں گرمیوں کے موسم میں جب پنکھے، اے سی اور روم کولر چلانے کی ضرورت پڑتی ہے تو بجلی ناپید ہوتی ہے۔ اورسردیوں میں جب ہیٹر اور گیزر لگانے کی ضرورت ہوتی ہے تو گیس کا بحران سر اٹھاتا ہے اور اکثر علاقوں میں چولہے تک بجھ جاتے ہیں گھروں، ہوٹلوں اور تندوروں میں لوگ سوختی لکڑی کے استعمال پر مجبور ہوجاتے ہیں۔مانگ بڑھ جانے سے بحرانی کیفیت پیدا ہونا گیس کی قلت نہیں، بلکہ بدانتظامی اور منصوبہ بندی کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ بلوچستان کے علاقہ سوئی سے اتنی گیس پیدا ہوتی ہے جو ملکی ضروریات کیلئے کافی ہے سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں بھی گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ لیکن گذشتہ پچاس سالوں سے سالانہ سردیوں میں گیس کا بحران پیدا ہونامعمول بن گیاہے۔ ملک میں ہائیڈرو پاور پلانٹس، سولر، کوئلے، ہوا، گیس، تیل اور جوہری پلانٹ سے اتنی بجلی پیدا ہوتی ہے کہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد ہم دو چار ہزار میگاواٹ بجلی برآمد بھی کرسکتے ہیں مگر ہماری ٹرانسمیشن لائنیں قومی ضرورت کیلئے درکار بجلی کا لوڈ نہیں اٹھاسکتیں اور ٹرانسمیشن لائنوں کو ملکی ضرورت کے مطابق اپ گریڈ کرنے پر کسی حکومت نے بھی توجہ نہیں دی۔ اگر واپڈا میں دو مہینے کی بجلی چوری اور کرپشن پر قابو پایاجائے تو اس رقم سے پورے ملک میں ٹرانسمیشن لائنوں کو درست کیاجاسکتا ہے۔ہمارے ہاں دانستہ طور پر بجلی اور گیس کی پیداوار اور تقسیم کے نظام کو پیچیدہ بنایاگیا ہے۔ پاور پرچیزنگ کمپنیاں بجلی گھروں سے بجلی خریدتی ہیں یہ کمپنیاں اب ہر مہینے نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی کو بجلی کی قیمت بڑھانے کی درخواست دیتی ہیں۔ حال ہی میں ایل این جی کی قیمت میں اضافے کے ساتھ پاور پرچیزنگ کمپنیوں نے نیپرا کو درخواست دی ہے کہ تین ماہ قبل ایل این جی سے مہنگی بجلی پیدا ہوئی تھی جس کی وجہ سے پرچیزنگ کمپنیوں کو آٹھ دس ارب کے اضافی اخراجات اٹھانے پڑے تھے۔ یہ رقم دسمبر میں بجلی استعمال کرنے والوں کے بلوں سے وصول کرنی ہے اس لئے بجلی کی قیمت میں پونے پانچ روپے مزید اضافے کی اجازت دی جائے۔ اس طرح اپنے آٹھ ارب کا نقصان پورا کرنے کے لئے صارفین کی جیبوں سے60 ارب روپے نکالے جائیں گے۔اور اگلے مہینے بجلی کی قیمت بڑھانے کی نئی درخواست دائر کی جائے گی۔ حکومت کو عوامی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے اربوں روپے کمانے والے مڈل مین کے کردار کو ختم کرنا ہوگا بصورت دیگر عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔