قومی احتساب بیوروکے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے، جو کرے گا وہ بھرے گا،پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانا مشکل کام ہے، کرپشن نے ملک کو اتنا برباد کیا ہے کہ عام آدمی کا جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے چیئرمین نیب نے کہا کہ چائے کی پیالی میں طوفان برپا کیا جاتا ہے کہ ریکوری کے اربوں روپے کہاں گئے، تمام ریکوری پیسوں میں نہیں ہوتی۔نیب کی جانب سے گوادر میں ریکور کرائی گئی زمینوں کی مالیت کھربوں میں ہے، ریکوری ہمارے پاس امانت ہے، ہمارے پاس براہ راست اور بالواسطہ ریکوری کا مکمل حساب موجود ہے،انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ نیب پر الزامات لگاکر سیاست میں زندہ رہنا چاہتے ہیں، نیب کو متنازعہ اس لیے بنایا جاتا ہے کہ طاقتور لوگوں سے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا پوچھاگیا۔چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ نیب کے کیسز کا فیصلہ کرنا میرے اختیار میں نہیں، فیصلے عدالتوں میں ہوتے ہیں۔ چیئرمین نیب نے سوال اٹھایا کہ پاپڑ والا اور چھابڑی والا اتنے امیر کیسے ہو گئے؟ اگر ہر کوئی اپنے حصے کا دیا جلائے گا تو پورا پاکستان روشن رہے گا، کوئی بھی شخص یا ادارہ کرپشن کے ناسور کو اکیلا ختم نہیں کر سکتا، نیب کی ساری وفاداریاں پاکستان کے ساتھ ہیں۔وزیراعظم عمران خان کی طرح چیئرمین نیب بھی بار بار کہہ رہے ہیں کہ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں۔جس شخص نے قومی دولت کو لوٹا، کرپشن کی، اوراپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔ اسے اپنے کئے کا حساب دینا ہوگا۔ نیب کا موقف ہے کہ چور اپنے پیچھے کوئی ثبوت نہیں چھوڑتا اس لئے اسے پکڑنااورلوٹی گئی دولت واپس لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ چیئرمین نیب اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ کرپشن کے بڑے مگرمچھوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور ان سے اربوں روپے کی ریکوری میں نیب کو اب بھی بہت کچھ کرنا ہے‘عدالت میں اپنا موقف ثابت کرنے کے لئے قابل قبول شہادت اور ٹھوس ثبوت پیش کرنے کیلئے مزید محنت کرنی پڑیگی۔یہ توقع رکھنا سب سے بڑی خود فریبی ہے کہ کوئی شخص رضاکارانہ طور پر رشوت، کمیشن اور اختیارات کے غیر قانونی استعمال کے ذریعے کمائی گئی دولت نیب کے قدموں میں لاکر ڈھیر کردے گا۔ کرپشن کرنے، رشوت اور کمیشن لینے والے بے ضمیر لوگ ہوتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کا محاسبہ کرنے کے لئے قومی احتساب بیورو، اینٹی کرپشن، ایف آئی اے اور دیگر ادارے قائم کئے گئے ہیں جن پر قومی خزانے سے اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔اگر یہ ادارے اپنے فرائض منصبی پوری دیانت داری اور ایمانداری سے ادا کریں اور دو چار سو افراد کو قرار واقعی سزا دلوادیں تو ملک سے رشوت ستانی‘ بدعنوانی‘ کمیشن خوری اور اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکا جاسکتا ہے۔سادہ سا فارمولہ ہے کہ نیب کروڑوں، اربوں روپے کی جائیدادوں، آف شور کمپنیوں، کارخانوں‘ زرعی زمینوں اور بینک بیلنس کا ثبوت عدالت میں پیش کرے اور انہیں جائز ثابت کرنے کی ذمہ داری ملزم پر ڈال دے اگر وہ اپنے اثاثوں کو جائز، قانونی یا موروثی ثابت نہ کرسکا تو انہیں بحق سرکارضبط کیا جائے یہی کرپشن کے خاتمے کا واحد ذریعہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیب قانونی دائرے کار کے اندر اپنی بھرپور کوشش میں مصروف ہے کہ کرپشن کا خاتمہ ہو اور اس کے نتیجے میں کوئی خزانے کو جو نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ ہو تاہم اس میں وقت لگے گا کیونکہ جس قسم اور جس شدت کے ساتھ یہ مسئلہ ماضی میں موجود رہا اس کی بیخ کنی کوئی آسان کام نہیں تاہم ارادے نیک ہو اور مسلسل مربوط کوششیں جاری ہوں تو کوئی کام ناممکن نہیں اور یہی وقت کا تقاضہ بھی ہے۔