خیبرپختونخوا کے آثار قدیمہ کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اِس اہمیت کا احساس اور اِس جانب توجہ مبذول کرتے ہوئے عدالت ِعالیہ (پشاور ہائی کورٹ) نے حکم دیا ہے کہ ”آثار ِقدیمہ قرار دی گئی جگہوں اور اِن سے ملحقہ مقامات پر جاری ایسی تمام سرگرمیاں روکی جائیں کیونکہ عدالت کے روبرو پیش کردہ حقائق و تفصیلات کے مطابق اِن سرگرمیوں کے باعث آثار قدیمہ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔“ قبل ازیں عدالت کے علم میں یہ بات لائی گئی تھی کہ کئی مقامات پر پتھروں کو توڑنے (سٹون کرشنگ) اور کان کنی (مائننگ) کے باعث صدیوں پرانے آثار کی بقا خطرے سے دوچار ہے۔ اِس مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے عدالت ِعالیہ کے دو رکنی بینچ میں شامل چیف جسٹس قیصر رشید خان اور جسٹس اشتیاق ابراہیم نے (پچیس نومبر کے روز) محکمہئ آثار قدیمہ و عجائب گھر (ڈائریکٹر آرکیالوجی اینڈ میوزیمز) کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ آثار قدیمہ کے قریب سٹون کرشنگ اور مائننگ جیسی سرگرمیوں کو فوراً بند کرنے سے متعلق عدالتی احکامات پر عمل درآمد یقینی بنائیں گے اور اِس بارے میں تفصیلات سے آئندہ پندرہ روز کے اندر عدالت کو تحریراً (رپورٹ کی صورت) آگاہ کریں گے۔ اِن عدالتی احکامات کی سادہ و آسان زبان میں تشریح کی جائے تو وہ یہ بنتی ہے کہ ”پشاور ہائی کورٹ نے محکمہئ آثار قدیمہ کو حکم دیا ہے کہ وہ کم سے کم تین مقامات پر ہونے والی کھدائی‘ کان کنی اور سٹون کرشنگ کا جائزہ لے اور اِسے روکنے کیلئے عملی اقدامات کرے۔ عدالت نے جن تین مقامات کی نشاندہی کی ہے اُن میں ترالائی (مردان)‘ رانی گھٹ (بونیر) اور بریکوٹ کے آثار قدیمہ شامل ہیں جبکہ اِن کے علاوہ بھی آثار ِقدیمہ کے ایسے مقامات موجود ہیں جنہیں آس پاس ہونے والی تعمیراتی یا دیگر کمرشل سرگرمیوں سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ عدالت ِعالیہ نے آثار قدیمہ سے متعلق جس دردمندی کا مظاہرہ کیا ہے‘ وہ مثالی اور خوش آئند ہے کیونکہ اِس میں سختی بھی شامل ہے اور احکامات میں مزید کہا گیا ہے کہ ”اگر آثار قدیمہ کو نقصان کا باعث سرگرمیاں نہ روکی گئیں تو متعلقہ اہلکاروں کے خلاف پولیس مقدمات (ایف آئی آرز) درج کئے جائیں گے۔“ اَمر واقعہ یہ ہے کہ آثار قدیمہ کی اہمیت کا خاطرخواہ احساس نہیں کیا جاتا۔ عدالت ِعالیہ نے جس انداز میں محکمہئ پولیس کے ذریعے آثار قدیمہ کی حفاظت نہ کرنے کو ’مجرمانہ غفلت‘ میں شمار کرتے ہوئے متعلقہ اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے ا س سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی“ کی طرح واضح ہو جائے گی کہ کس طرح آثار قدیمہ کو نقصان پہنچایا گیاہے اور اِس کی ایک جھلک پشاور کے تیزی سے مٹتے ہوئے ”فن ِتعمیر“ کی صورت دیکھا جا سکتا ہے۔ یادش بخیر اکتوبر 2018ء میں محکمہئ آثار قدیمہ نے پشاور شہر میں ایسے ”1800 مکانات (قدیمی فن تعمیر کے شاہکار نمونوں)“ کی نشاندہی کی تھی اور اِن مکانات کے مالکان کو تحریراً (بذریعہ نوٹسیز) آگاہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنے مکانات کی تعمیرومرمت یا اِنہیں منہدم کرنے کا اختیار نہیں رکھتے اور اگر ایسا کریں گے تو خیبرپختونخوا کے ایک قانون ’انٹیکیوٹیز ایکٹ 2016ء‘ کے تحت جرم کا ارتکاب کریں گے اور اُن کے خلاف مذکورہ قانون کے تحت کاروائی کی جائے گی۔ ذہن نشین رہے کہ ’انیکیوٹیز ایکٹ 2016ء‘ کے تحت 100 سال یا اِس سے پرانی (قدیمی) ہر تعمیر ’تاریخی‘ اہمیت کی حامل اور ’قومی ورثہ‘ ہے جس کی انفرادی یا اجتماعی ملکیت رکھی جا سکتی ہے لیکن اِس اراضی کے مالکوں کو اختیار نہیں کہ وہ اِس عمارت کے ڈھانچے میں تبدیلیاں کریں اور اگر عمارت کی خستہ حالی‘ کسی قدرتی آفت زلزلہ یا بارش وغیرہ سے نقصان پہنچنے یا کسی بھی وجہ سے اگر گھر کی تعمیرومرمت کرنا ضروری ہو تو ایسی صورت میں محکمہئ آثار قدیمہ سے تحریراً اجازت لی جائے گی‘ جس کیلئے ایک الگ سے طریقہئ کار قانون کی روشنی میں وضع کردہ قواعد میں موجود ہے۔عدالت ِعالیہ نے جن آثار قدیمہ کی حفاظت کی ضرورت اور اُنہیں پہنچنے والے نقصانات کے ازالے کی ضرورت پر زور دیا ہے‘ اُن کی اکثریت مضافاتی علاقوں (آبادی کے مراکز) سے الگ ہیں اور وہاں ایسی خلاف قانون و قواعد سرگرمیوں (جرائم) کا اِرتکاب چھپ چھپا کر ممکن نہیں ہوتا۔ دوسری لائق توجہ بات یہ ہے کہ سٹون کرشنگ اور کان کنی چھوٹے پیمانے پر نہیں بلکہ ایک بڑی سرگرمی ہوتی ہے جس میں بھاری گاڑیوں اور ملبے کی نقل و حرکت بھی ہوتی ہے اور یہ کام دن کی روشنی میں سرانجام دیا جاتا ہے جبکہ پشاور کے جن قدیمی مکانات کو آثار قدیمہ قرار دینے کے باوجود نقصان پہنچ رہا ہے‘ اُس کا حجم یکساں بڑا ہے اور ہفتہ وار تعطیلات کے موقع پر رات گئے مکان کو منہدم کرنے کا کام شروع کیا جاتا ہے اور دو دن میں نیا ڈھانچہ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ …… آثار قدیمہ کسی ایک ادارے (حکومتی محکمے یا فیصلہ سازوں) کی ذمہ داری نہیں بلکہ خیبرپختونخوا اور پشاور کے ہر باسی کا اثاثہ ہیں اور اِس کی حفاظت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے ہر خاص و عام کو نہ صرف اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہوئے کسی بے قاعدگی کی صورت آواز اُٹھانے (احتجاج) سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر مرتبہ عدالت ِعالیہ ہی مداخلت کرے۔