عالمی اِدارہئ صحت نے کورونا وبا کا باعث بننے والے جرثومے (وائرس) کی نئی قسم دریافت ہونے کے بارے مطلع کیا ہے‘ جو کورونا خاندان کے جرثوموں کی اِبتدائی اشکال (قسموں) سے مختلف (زیادہ پیچیدہ) بتائی جا رہی ہے کہ ابتدائی چار اقسام کے جرثومے کا علاج یا اِس کی وجہ سے لاحق ہونے والی بیماریوں کے اثرات کم کرنے کا طریقہئ علاج (ویکسین) کسی نہ کسی صورت دریافت کر لیا گیا تاہم نئی قسم جسے یونانی زبان کے ہندسے ’پانچ (Omicron)‘ کا نام دیا گیا ہے کی خصوصیات میں یہ خطرناک پہلو بھی شامل ہے کہ یہ کورونا وائرس کی ابتدائی اقسام کے مقابلے زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔ ’اومی کورن‘ کا پہلا نمونہ چوبیس نومبر کے روز ’جنوبی افریقہ‘ سے ملا جس کے بعد تحقیق میں وائرس کی یہی قسم بوسٹوانا‘ بیلجیئم‘ ہانک کانگ اور اِسرائیل میں بھی پائی گئی۔ ’اُومی کورن‘ پھیلنے کی صلاحیت سے پریشان عالمی فیصلہ سازوں نے ممالک کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ’کورونا وبا‘ کی نئی یا پہلے سے معلوم اشکال سے بچنے کے لئے اِحتیاطی تدابیر (SOPs) پر عمل درآمد جاری رکھیں اور عالمی سفر (آمدورفت) کرنے والے زیادہ اِحتیاط کا مظاہرہ کریں۔ قابل ذکر ہے کہ کئی ممالک پہلے ہی براعظم افریقہ کے متاثرہ ممالک سے ہوائی سفر پر پابندی عائد کر چکے ہیں۔ پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق ستائیس نومبر کی صبح امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے ”8 جنوبی افریقیائی ممالک سے امریکہ سفر پر پابندیاں عائد کیں“ اِن میں جنوبی افریقہ‘ بوسٹوانا‘ زمبابوے‘ نمیبیا‘ لیستھو‘ ایسواتھنی‘ موزمبیق اور ملاوی شامل ہیں۔ یہ پابندی غیرامریکی مسافروں کے لئے ہے‘ جنہیں خصوصی صورتوں میں امریکہ داخلے کی اجازت 14 روز الگ تھلگ (قرنطین) رہنے کے ساتھ مشروط کی گئی ہے۔ امریکہ سے ایک دن قبل (چھبیس نومبر) کے روز یورپی یونین نامی تنظیم کے 27 ممالک نے کورونا وبا کا باعث بننے والے نئے جرثومے کی وجہ سے 7 افریقیائی ممالک پر سفری پابندیاں عائد کیں اور خاص بات یہ ہے کہ یہ اعلان چند گھنٹوں کے اندر سامنے آیا جب یورپی یونین سے متعلق ہنگامی حالات بارے حکمت ِعملی بنانے ایک ادارے ’اِنٹیگریٹیڈ پولیٹیکل کرائسیز ریسپانس‘ نے نئے کورونا وائرس کی جانب توجہ دلائی اور اِس کے بعد دنوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں میں مذکورہ سفری پابندی کا فیصلہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا ذریعے ’ٹوئیٹر (@EU2021SI) اکاؤنٹ‘ سے اعلان کیا گیا کہ سات جنوبی افریقیائی ممالک سے یورپی یونین میں داخلے پر پابندی ہوگی جبکہ یورپی یونین کے ممالک افریقہ سے آنے والے مسافروں کے کورونا ٹیسٹ کریں اور اُنہیں ایک خاص دورانیے (عرصہ چودہ دن) کے لئے الگ تھلگ رکھا جائے تاکہ اگر وہ کورونا وبا کی کسی بھی قسم اور کسی بھی حد تک متاثر ہوں تو مرض کی علامات ازخود ظاہر ہو جائیں جو عموماً تجزئیات (ٹیسٹنگ) سے ظاہر نہیں ہوتیں۔ دنیا کورونا وبا کی نئی قسم (اومی کورن) سے پریشان اور اِس سے بچنے کے لئے فوری فیصلے و اقدامات کا اعلان کر رہی ہے جیسا کہ امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے ردعمل آ چکا ہے کیونکہ اِن اُور دیگر ممالک کے فیصلہ سازوں کیلئے عوام کا مفاد ہر شے سے زیادہ عزیز و ترجیح ہوتا ہے۔ یہاں ایک خاص نکتہ (لطیف بات) یہ بھی ہے کہ اگرچہ سفری پابندیوں کا اعلان امریکہ اور یورپی یونین کے قائدین کی جانب سے ہوا ہے لیکن اِس بات کا فیصلہ منتخب نمائندوں (سیاستدانوں) نے نہیں کیا بلکہ اِن ممالک کے ہاں طبی ماہرین پر مشتمل اِدارے فعال ہیں جو کورونا وبا سمیت عالمی صورتحال پر نظریں رکھے ہوئے ہیں اور کسی بھی تبدیلی پر فوری مشاورت اور اِس کے ممکنہ تکنیکی حل سے متعلق فیصلوں سے قومی قیادت کو بروقت مطلع کرتے ہیں۔ پاکستان نے ستائیس نومبر کی شام 6 افریقیائی ممالک سے آمدورفت پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا اور وہاں سے پاکستانیوں کی وطن واپسی کیلئے 5 دسمبر تک کی مہلت بھی مقرر کی۔ اگرچہ پاکستان کو بظاہر فوری خطرہ نہیں لیکن درپیش خطرہ زیادہ بڑا اور سنگین ہے کہ پاکستان سے انتہائی جنوب کے افریقیائی ممالک کیلئے براہ راست پروازوں کا معمول نہیں بلکہ اِن ممالک کو جانے والے براستہ متحدہ عرب امارات‘ دوحا (قطر)‘ بحرین اُور فرینکفرٹ (جرمنی) سفر کرتے ہیں۔ یہاں بچت کا عنصر بھی پیش نظر رہتا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پروازوں کے ذریعے مسافروں کا کسی ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کی صورت وقت سے زیادہ پیسوں کی خرچ ہوتی ہے لیکن البتہ مشکل یہ ہے کہ پاکستان آنے والے اگر کسی افریقی ملک سے آئیں تو اِس بات کا علم اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اُن سے پوچھ گچھ نہ کی جائے اور اُن کی سفری دستاویزات کا دلچسپی و توجہ سے مطالعہ نہ کیا جائے کیونکہ وہ جس جہاز کے ذریعے پاکستان میں وارد ہوتے ہیں وہ افریقہ سے نہیں بلکہ محفوظ خلیجی یا یورپی ممالک سے آتے ہیں۔ پاکستان میں مجموعی طور پر151 ہوائی اڈے اور ہوائی پٹیاں ہیں تاہم اِن میں شہری ہوابازی کیلئے استعمال ہونے والے باچا خان اِنٹرنیشنل ائرپورٹ (پشاور)‘ علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ (لاہور)‘ جناح انٹرنیشنل ائرپورٹ (کراچی) اُور اسلام آباد انٹرنیشنل ائرپورٹ مصروف ترین ہیں۔ مثال کے طور پر کراچی سے 20 ائرلائنز 36 مختلف‘ لاہور سے 17 ائرلائنز 13 مقامات اور پشاور سے 10 جہاز راں کمپنیاں (ائرلائنز) 17 مختلف مقامات کے اڑانیں بھرتی ہیں۔ اِسی طرح اسلام آباد ائرپورٹ سے 31 مختلف شہروں کے لئے چوبیس گھنٹے پروازوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے جو غیرمعمولی ٹریفک (مسافروں کی آمدورفت) ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کورونا وبا کی نئی یا پرانی اقسام کے پاکستان میں داخلے کا واحد امکانی راستہ یہی عوامی ہوائی اڈے (ائرپورٹس) ہیں۔ قومی سطح پر فیصلہ سازوں کو اِس بارے فکرمندی و دردمندی کے زاویوں سے سوچنا پڑے گا کہ یکساں اہم ہے کہ عمومی و خصوصی پروازوں کے ذریعے پاکستان آنے والے مسافروں پر بھی نظر رکھی جائے اور اُن کے سفری کوائف (ٹریولنگ ہسٹری) کو دیکھا جائے یا لازم ہو کہ وہ اِس سلسلے میں تفصیلات (پاسپورٹ کی فوٹوکاپی نقول) فراہم کریں کیونکہ کورونا وبا کا خطرہ غیرمعمولی طور پر بڑا اور اِس بات کا متقاضی ہے کہ اِس کی موجودگی کا سنجیدگی و فوری ردعمل (اقدامات) کی صورت احساس کیا جائے۔