معاشی استحکام کا عوامی مفہوم

حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ قرضے کی فراہمی کے لئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کیشرائط قبول کرنے سے مہنگائی میں کمی ہوگی۔ مشیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سے متعلق حکومت کے مخالفین دانستہ طور پر غلط فہمیاں پھیلارہے ہیں۔آئی ایم ایف ٹیکسز لگانے پر اصرار کر رہا تھا مگر ہم نے صاف انکار کر دیا۔ روپے کی قدر بہتر ہونے سے سٹہ بازوں کو بہت مار پڑے گی۔ایسے اقدامات کر رہے ہیں کہ روپے کی قدر بہتر ہو، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کے بعد ٹیکسز میں اضافہ نہیں ہوگا بلکہ ٹیکس چھوٹ ختم کریں گے۔ جو پہلے سے ٹیکس دے رہے ہیں ان پر مزید ٹیکس عائد نہیں ہوگا،حکومت کھاد پر سبسڈی دے رہی ہے یوریا کی بوری کسان کو 2200 میں مل رہی ہے، ہم کسانوں کوبراہ راست سبسڈی دینے جا رہے ہیں۔ مشیر خزانہ کا موقف ہے کہ ہمارے ہاں غربت کا نہیں بلکہ افراط زر کا مسئلہ ہے، لوئر مڈل کلاس پس رہا ہے، ریسٹورنٹس میں جائیں‘ کھانا کھانے کیلئے لوگوں کی قطاریں لگی ہوتی ہیں، گاڑیاں،موبائل فون اور موٹر سائیکل دھڑا دھڑ فروخت ہو رہی ہیں، غریب، لوئر مڈل کلاس اور تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کیلئے احساس راشن پروگرام لا رہے ہیں۔تیل کی قیمتوں میں اضافے پر امریکہ، چین اور دیگر ملکوں نے ایکشن لیاہے جس کی وجہ سے تیل پیدا کرنے والے ملکوں نے قیمتوں میں کمی کا عندیہ دیا ہے۔ تیل سستا ہونے کا فائدہ عوام تک پہنچائیں گے۔ دوسال قبل کورونا کی لہر آنے کے بعد سے اب تک اشیائے ضروریہ کی قیمتوں تقریباً سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بیس کلو آٹے کا تھیلہ آٹھ سو سے بڑھ کر 14سو روپے کاہوگیا۔ گھی اور کوکنگ آئل کی قیمت 180روپے سے بڑھ کر 370روپے کلو تک پہنچ گئی۔چینی 55روپے سے 170 روپے کلو تک پہنچ گئی تھی اب درآمدی چینی مارکیٹ میں آنے سے قیمتیں گر کر سو روپے کلو تک آگئی ہیں،چاول، دالوں، مصالحہ جات کے نرخوں میں بھی دوگنا اضافہ ہوا ہے۔مہنگائی میں اس ہوشربا اضافے کا بنیادی سبب گیس، تیل اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہے۔ پیداواری لاگت بڑھنے سے مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں‘سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا تنخواہ دار طبقے خصوصاًنجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کو ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق گذشتہ تین سالوں میں ساٹھ سے ستر لاکھ افراد روزگار سے محروم ہوچکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مڈل کلاس کے لوگ لوئر مڈل کلاس میں جاچکے ہیں جبکہ لوئرمڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے غربت کی لکیر سے نیچے کی سطح پر زندگی گذارنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ہوٹلوں میں کھاناکھانے والوں، موبائل، موٹر سائیکل اور کاریں خریدنے والوں اور سیاحتی مقامات پر جانے والوں کی تعداد یا سٹاک مارکیٹ کے کاروبار میں تیزی کو ہرگز معاشی استحکام سے تعبیر نہیں کیاجاسکتا‘جرائم اور خود کشی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔