دنیا بہت تیزی سے بدل گئی ہے‘روایات واقدار کے ساتھ ساتھ روزگار کے حصول کے ذرائع میں بھی تبدیلیاں رونماہورہی ہیں اس لئے مستقبل میں خود کو بیروزگار ی کے عذاب سے بچانے کے لئے نوجوانوں کو بھی اب جدت پسندی کے ساتھ آگے بڑھناہوگا‘فی الوقت ہم کووڈ 19 کے بعد کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں روزگار کی منڈی یا جاب مارکیٹ میں کوئی بڑی تبدیلی تو نہیں آئی ہے مگر تبدیلی کا امکان ضرور پیدا ہوا ہے۔ گزشتہ دو برس میں اپنی تعلیم مکمل کرنے والے طلبہ نے کووڈ کے دور میں جب بھی روزگار کی صورتحال کا جائزہ لیا ہوگا، اْنہیں مایوسی ہوئی ہوگی یہ مایوسی غیر فطری نہیں تھی کیونکہ حالات ہی ایسے تھے۔ مگر بڑی بات ہوتی اگر اْنہوں نے یہ جاننے کی کوشش کی ہوتی کہ ایسے ماحول میں جب ہر طرف اندھیرا ہے، کیا چند جگہیں ایسی ہیں جہاں روشنی ہے؟ جن طلبہ نے یہ کوشش کی ہوگی اْنہیں علم ہوا ہوگا کہ ہاں چند مقامات پر روشنی ہے بالخصوص اْن شعبوں اور اداروں میں جہاں کورونا نے آن لائن بزنس کا امکان بڑھا دیا ہے۔ ادویات کے شعبے میں پہلے سے زیادہ سرگرمیاں تھیں۔ غذائی صنعتوں سے متعلق شعبے میں بھی بڑے پیمانے پر ہلچل تھی۔ کمپیوٹر کے جدید تر استعمال کے شعبے مثلاً ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں بھی کافی گہماگہمی تھی۔ یعنی ان شعبوں میں روزگار تھا، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ روزگار کے بارے میں دو باتیں ہمیشہ یاد رکھی جانی چاہئیں پہلی یہ کہ جاب مارکیٹ کے تقاضے مسلسل بدلتے رہتے ہیں۔ آج سے بیس برس کے اخبارات میں ”سچویشن ویکنٹ“ (ملازمت دستیاب ہے) کے کالم میں جن آسامیوں کیلئے اشتہار دیئے جاتے تھے، وہ پندرہ یا دس برس پہلے کے اخبار میں نہیں ملیں گی۔ آج جن اسامیوں کیلئے اشتہار دیئے جاتے ہیں وہ دس برس پہلے کے اخبار میں نہیں ملیں گی۔ یہ آئینہ ہے حالات اور ان کے ساتھ اسامیوں کی بدلتی نوعیتوں کا۔ اس لئے نوجوانوں کو چاہئے کہ خود کو بدلتے حالات کیلئے تیار کریں۔ یہ ہوئی ایک بات۔ دوسری بات جو ذہن نشین رہنی چاہئے وہ یہ ہے کہ کسی بھی دور میں روزگار کے مواقع بالکل ختم نہیں ہوتے اسی لئے نوجوانوں کی توجہ اس نکتے پر مرکوز رہنی چاہئے کہ مارکیٹ میں کیا چل رہا ہے اور اس میں کیسی ملازمتیں ہنوز جاری ہیں۔ کووڈ19کے دور کو سامنے رکھئے تو اس نکتے کی تفہیم باآسانی ہوگی۔ اِس دور میں ہیلتھ کیئر، ای کامرس، ایڈ ٹیک (ایجوکیشن ٹیکنالوجی) اور کلاؤڈ وغیرہ کی مانگ میں اضافہ ہوا۔ جن لوگوں نے اِس خراب ترین دور میں بھی نئی ملازمتوں کیلئے خود کو تیار کرنا چاہا اْنہوں نے غیر متعلق شعبوں کو پرایا نہیں سمجھا۔ اْن کے ذہن میں یہ تھا کہ اگر حالات جلد ٹھیک نہ ہوئے تب بھی وہ محروم ِ ملازمت نہ رہیں گے۔ آپ جانتے ہوں گے کہ لاک ڈاؤن میں لوگوں نے فاضل وقت کے بہتر استعمال کیلئے کئی آن لائن کورسز سے استفادہ کیا۔ کسی نے ڈیجیٹل مارکیٹنگ تو کسی نے گرافک ڈیزائننگ کے رموز و نکات کو سمجھنے کی کوشش کی، کسی نے بزنس اسکل ٹریننگ حاصل کی تو کسی نے ٹیکنالوجی کے نئے پلیٹ فارمز کو سمجھنے پر وقت صرف کیا۔ یہ خود کو نامساعد حالات کیلئے تیار کرنے کی کوشش تھی کیونکہ سخت بے روزگاری کے دور میں بھی روزگار کے مواقع موجود رہتے ہیں جیسا کہ بالائی سطور میں عرض کیا گیا۔ کووڈ کے دور نے یہ بھی سکھایا کہ کسی ایک شعبے میں اختصاص کو کافی نہیں سمجھ لینا چاہئے بلکہ دیگر شعبہ جات کا کچھ نہ کچھ علم تو ہر ایک کے پاس رہنا چاہئے۔ اسی لئے، ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بے روزگاری 45 سال کی سب سے اونچی سطح پر پہنچ جانے کے باوجود روزگار ختم ہوا نہ آئندہ کبھی ہوگا، شرط صرف یہ ہے کہ دستیاب مواقع کیلئے خود کو تیار کیا جائے اور اپنی پسند پر حالات کو ترجیح دی جائے۔ اپنی پسند سے سیکھنا اچھا ہے مگر حالات جو سکھائیں وہ سیکھنا اور بھی اچھا ہے۔ جہاں تک وطن عزیز کاتعلق ہے تو آئی ایم ایف نے رواں مالی سال کے دوران افراط زر کی شرح 8.5 فیصد، بے روزگاری کی شرح 4.8 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا ہے گذشتہ ماہ جاری رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لئے شرح نمو 4 فیصد کے ساتھ ساتھ رواں مالی سال کے دوران مہنگائی اور بیروزگاری کی بلند ترین شرح کی پیش گوئی کی ہے۔ یہ شرح نمو بالکل ویسی ہی ہے جیسا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے بھی اس سے قبل بتائی تھی۔اس کے علاوہ چند روز قبل عالمی بینک کی جانب سے 3.4 فیصد شرح نمو کی پیش گوئی کی گئی تھی جو حکومت نے غیر حقیقی قرار دے کر مسترد کر دیا تھابیروزگاری بڑھنے کی وجوہات میں ظاہرہے کہ سب سے بڑی وجہ تو کوڈ19خود ہی ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ مصنوعی مہنگائی منصوبہ بندی کافقدان اور معاشی عدم مساوات کو بھی کسی صورت نظر انداز نہیں کیاجاسکتاساتھ ہی اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھاجاناچاہئے کہ بیروزگاری کاخاتمہ صرف سرکاری ملازمتوں کی فراہمی سے ہی ممکن نہیں اس کے لئے نجی شعبہ کو بھی مؤثر کردار ادا کرناہوگا صرف شعبہ زراعت کو دیکھاجائے تو حکومت تھوڑی سی توجہ دے کر روزگار کے لاکھوں مواقع فراہم کرسکتی ہے لائیوسٹاک کے ذریعہ نوجوانوں کو ڈیر ی فا رمنگ،گلہ بانی اورپولٹری کی طرف راغب کیاجاسکتاہے جس کے لئے پہلے ہی خیبرپختونخوا میں کئی منصوبے شروع کئے جاچکے ہیں اب ان منصوبوں کو وسعت دینے کی ضرورت ہے ماہی پروری کاشعبہ بھی اہم ہے اس وقت سینکڑوں ٹراؤٹ فش فارم حکومت کی طرف سے بنائے جارہے ہیں ظاہرہے کہ اگر فارم بنوانے والے سنجیدہ ہوئے تو ہزاروں لوگوں کو بالواسطہ اوربلاواسطہ روزگار فراہم ہوسکے گا زعفران زیتون اورشہدکی پیداوار پرتوجہ دے کر بھی بیروزگاری کو قابو میں رکھا جاسکتاہے وبائی صورتحال کے تناظر میں دنیا بھر میں شعبہ روزگار بری طرح سے متاثرہواہے اوربیروزگاری میں اضافہ جیسے سنگین مسائل سامنے آئے ہیں دنیاکے ترقی یافتہ اورترقی پذیر دونوں ممالک ہی بیروزگاری کے مسئلہ سے نبردآزما ہیں کیونکہ روزگار کے مواقع کی فراہمی اورنئے روزگار کی تخلیق معاشی سماجی سائیکل رواں رکھنے میں انتہائی مدد گار ہے اس ضمن میں ہرملک کی کوشش ہے کہ مستحکم روزگار کے لئے موزوں پالیسیاں متعارف کروائی جائیں تاکہ وبائی صورتحال سے نمٹتے ہوئے سماجی معاشی بحالی کی جانب بڑھاجائے ایک ارب چالیس کروڑ آبادی کے حامل ملک چین کے لئے توباقی دنیا کی نسبت اس کے مسائل بھی زیادہ ہونے چاہئیں مگر چین کی عمدہ اوربروقت پالیسی سازی کے باعث روزگار کے نئے مواقع پیداکیے جارہے ہیں اوربیروزگار سے احسن طریقے سے نمٹا جارہاہے روزگار کے متلاشی افراد کو ملازمت کے زیادہ سے زیادہ مواقع تک رسائی کے لئے چین نے مخصوص آن لائن بھرتی مہم شروع کی ہوئی ہے جس میں مائیکرو چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری ادارے نئے انفراسٹرکچر ای سپورٹس اور زراعت پرتوجہ دی گئی ہے چین جدت اور سٹارٹ اپس کی مدد سے ملازمت کے مواقع بڑھانے کے لئے بھی کوشاں ہے ہم بھی چین کے تجربات سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں اوراٹھانابھی چاہئے بھی کیونکہ کورونا کے بعدسے روزگار کی صورت حال بہت زیادہ متاثر ہوچکی ہے جس پر قابو پانے کیلئے ہنگامی اقدامات ناگزیر ہیں۔