سال 2013ء کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ (بلدیاتی قانون) کے تحت بنائی گئی ضلع پشاور کی مقامی حکومت 92 جنرل نشستوں‘ 31 خواتین کے لئے مختص نشستوں‘ 5 مزدور کسان‘ 5 مذہبی اقلیت اور 5 نوجوانوں کے نمائندوں پر مشتمل ہے۔ اِن نمائندوں کی مجموعی تعداد 138 بنتی ہے یعنی پچاس لاکھ سے زائد آبادی کی بنیادی ضروریات بارے غوروخوض 138 رکنی ایوان کی ذمہ داری ہے‘ جو شروع دن سے آج تک مالی وسائل اور فیصلہ سازی میں خودمختاری کا مطالبہ کرتا آیا ہے اور حسب قانون چاہتا ہے کہ اِسے ’صوبائی فنانشل کمیشن (PFC)‘ کی جانب سے مقرر کردہ فنڈز بنا کٹوتی دیئے جائیں جیسا کہ سال2019-20ء میں ’پی ایف سی‘ نے (لوکل گورنمنٹ ایکٹ دوہزارتیرہ کی روشنی) میں کہا تھا کہ عوامی بلدیاتی نمائندوں پر مشتمل اداروں کو 43 ارب روپے دیئے جائیں جبکہ حکومت نے صرف 3 ارب روپے جاری کئے۔پہلا نکتہ: پشاور سے متعلق فیصلہ سازی میں سیاسی‘ جماعتی اور انتخابی و انفرادی مفادات کو پس پشت ڈالنے کی ضرورت ہے۔ دوسرا نکتہ: وفاقی حکومت سال 2022ء کے اختتام تک ’مردم شماری‘ مکمل کرنے کا اعلان کر چکی ہے جس کا مطلب ہے کہ نہ صرف قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں آبادی کے تناسب سے اضافہ ہوگا بلکہ نئی مردم شماری سے بلدیاتی حلقوں میں بھی ردوبدل ہو سکتا ہے جبکہ انتخابی حلقہ بندیوں کی فہرستوں پر نظرثانی‘ ووٹوں کے اندراج و تصدیق کا عمل اپنی جگہ جاری اور تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ تیسرا نکتہ: قومی انتخابات اور بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں بیک وقت جاری ہیں جن کے لئے حکومتی ادارے بھی اپنے فرائض و ذمہ داریوں کے مطابق تیاریاں کر رہے ہیں لیکن اگر بلدیاتی انتخابات کے تناظر میں بات کی جائے تو ایک مرتبہ پھر پشاور کے محاذ پر انتخابی اتحاد اور روایتی اتحادی سرگرم دکھائی دیتے ہیں اور اِس میں سب کی نظریں حکمراں جماعت پر لگی ہوئی ہیں‘ جسے حزب اختلاف کے اتحاد کی وجہ سے زیادہ سخت مقابلہ درپیش ہے۔ یادش بخیر سال 2001ء سے 2005ء کے دوران پیپلزپارٹی کے رہنما اعظم خان آفریدی پشاور کے ناظم (میئر) رہے۔ 17 اکتوبر 2005ء سے گیارہ فروری 2009ء جمعیت علمائے اسلام کے حاجی غلام علی ناظم رہے جس کے بعد تھوڑے عرصے کے لئے عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی عمر ناظم رہے اُور تیس اگست 2015ء سے ارباب عاصم خان ناظم اُور سیّد قاسم علی شاہ نائب ناظم کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ زمینی حقائق بڑی حد تک تبدیل ہو چکے ہیں اور مہنگائی کی لہر یقینا آئندہ عام انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہو گی‘ جس کے لئے حزب اختلاف کی جاری انفرادی و اجتماعی محنت کو صرف سے ضرب دیتے ہوئے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں رائے دہی کا عمل 19دسمبر 2021ء کو انجام پائے گا جبکہ اِس پہلے مرحلے میں خیبرپختونخوا کے 17 اضلاع کے 66 شہروں میں پولنگ ہوگی‘ جس کے لئے کل 1005 اُمیدواروں نے (مختلف اضلاع سے) ’میئر‘ کے لئے کاغذات جمع کروائے ہیں جن میں پشاور شہر کی ’میئرشپ‘ کے 17 اُمیدوار بھی اِس دوڑ میں شامل ہیں۔ اِن ناموں میں سے حتمی اُمیدواروں کے نام سامنے آنے میں کچھ وقت لگے گا کیونکہ ایک ہی نشست کے لئے سیاسی جماعتوں نے ایک سے زیادہ اُمیدواروں کو کاغذات جمع کروانے کا کہا ہے تاکہ کسی ایک کی تکنیکی وجہ سے نااہلی ہونے کی صورت میں وہ میئر کے لئے مقابلے سے باہر (آؤٹ) نہ ہو جائیں۔ سیاسی جماعتوں کی یہ روایتی انتخابی حکمت ِعملی ہوتی ہے اور اِسی میں اُمیدواروں کے ناموں یا اُن کے انتخابی نشانوں سے ملتے جلتے نشانوں سے بھی کارکنوں کو کھڑا کیا جاتا ہے جو کسی اُمیدوار کے سینکڑوں کی تعداد میں ووٹ ضائع کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات چاہے قومی ہوں یا صوبائی‘ ضمنی ہوں یا بلدیاتی‘ اِن کے لئے ”الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (EVMs)“ کے استعمال سے متعلق تحریک انصاف کا مؤقف سوفیصد درست ہے لیکن ایک ایسا ملک کہ جہاں کسی ایک بھی قومی مسئلے پر اتفاق رائے نہ پایا جاتا ہو وہاں ’الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں‘ پر اِتفاق راھئے پیدا ہونا عملاً ممکن ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔