اومی کرون کے نام سے کورونا وائرس کی نئی خطرناک قسم افریقہ سے یورپ پہنچ گئی ہے امریکہ‘ برطانیہ‘آسٹریلیا‘نیوزی لینڈ‘کینیڈا‘ برازیل‘ پاکستان‘جاپان اور ساؤتھ کوریا سمیت کئی ممالک نے افریقی ممالک پر سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں جرمنی کی ریاست باویریا میں نئی کورونا وائرس کے دو کیس سامنے آئے ہیں۔برطانیہ میں بھی اومی کرون کے دو کیسزکی تصدیق ہوئی ہے۔ جمہوریہ چیک میں بھی نئے ویرینٹ کا ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔جنوبی افریقہ سے پھیلنے والی کورونا کی یہ پانچویں لہر دیگر معلوم اقسام سے کہیں زیادہ خطرناک قرار دی گئی ہے جو تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔عالمی ادارہ صحت نے اومی کرون کو انتہائی تشویشناک قرار د یتے ہوئے کہا ہے کہ نئی قسم کی خصوصیات پریشان کن ہیں ابتدائی شواہد سے پتہ چلا ہے کہ کورونا کی نئی قسم میں دوبارہ متاثر ہونے کا خطرہ موجود ہے۔پانچویں لہر کے پھیلاؤ کی وجہ سے عالمی ادارہ تجارت نے گزشتہ چار سال میں ہونے والا اپنا پہلا وزراتی اجلاس پھر سے ملتوی کر دیا ہے۔ 160 ممالک کاوزرا تی اجلاس میں سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ہونا طے تھا۔اومی کرون وائرس کے بارے میں بتایاجاتا ہے کہ اس سے متاثرہ شخص میں تیزبخار، بھوک مٹنا اور دوسری علامات نہیں پائی جاتیں،یہ براہ راست پھیپھڑوں پر حملہ کرتا ہے۔ یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں چند منٹوں کے اندر منتقل ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق کورونا ویکسین لگانا، فیس ماسک کا استعمال، باربار ہاتھ دھونا اور رش والے مقامات پر جانے سے احتراز کے ذریعے اس مہلک وباء سے بچا جاسکتا ہے۔ پاکستان نے نئی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے بیرون ملک سے پاکستان آنے والے فضائی مسافروں کیلئے ہدایت نامہ جاری کردیا ہے۔ جنوبی افریقہ اورہانگ کانگ سمیت چھ ممالک کو کٹیگری سی میں شامل کیاگیا ہے۔کیٹگری سی میں شامل ممالک سے مسافروں کی پاکستان آمد پر پابندی ہوگی، بیرونِ ملک سے پاکستان آنے والے مسافروں کو 72 گھنٹے قبل کورونا پی سی آر ٹیسٹ کرانے کی شرط برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔کورونا کی مہلک وباء نے گذشتہ دوسالوں میں پوری دنیا کو ہلاکررکھ دیا ہے۔ تجارت پر پابندیوں، اداروں کی بندش اور ممالک کے درمیان رابطے منقطع ہونے کی وجہ سے عالمی معیشت کو کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ پوری دنیا میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، لوگوں کا روزگار چھن چکا ہے کاروبار میں مندی کا رجحان ہے شکر ہے حکومت کی بروقت احتیاطی تدابیر کی بدولت ہمارے ہاں جانی ومالی نقصان دوسرے ملکوں کی نسبت کم رہا ہے۔دنیا بھر کے سائنس دان سرجوڑ کر اس مہلک مرض کا علاج دریافت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مختلف ممالک نے جو ویکسین تیار کی ہے وہ کورونا کا علاج نہیں، بلکہ قوت مدافعت بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے تاکہ جسم کے اندر اس وائرس کا مقابلہ کرنے کی قوت پیدا کی جاسکے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں بہت سے لوگ آج بھی کورونا کو موسمی بیماری قرار دیتے ہیں۔اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری نہیں گردانتے۔ جن لوگوں کے ماں، باپ، بہن، بھائی، بیٹے، بیٹیاں اور عزیز واقارب اس موذی مرض کا شکار ہوئے ہیں۔انہیں اس وباء کی ہلاکت خیزی کا احساس ہے۔امراض قلب، زیابیطس، گردوں کی بیماری اور دمے کے مرض میں مبتلا افراد کیلئے کورونا کا مرض زیادہ مہلک ثابت ہوا ہے۔ ذمہ دار اور باشعور قوم کی حیثیت سے ہم میں سے ہرایک شہری کا یہ اخلاقی، قومی اور مذہبی فریضہ ہے کہ اپنی، اپنے پیاروں اور دیگر انسانوں کی زندگی بچانے کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔فیس ماسک کا استعمال انسان کو متعدی بیماریوں کے علاوہ گردوغبار، بدبو اور موسمی اثرات سے بھی محفوظ رکھتا ہے جبکہ صفائی کو ہمارے دین نے ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔ بھیٹر والی جگہوں میں جانے سے گریز انسان کو ذہنی دباؤ، پریشانی اور آلودگی سے محفوظ رکھتا ہے۔ اگر کسی کو اپنی جان اور اپنے پیاروں کی زندگی پیاری ہے تو اسے احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کرنی چاہئے۔