وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کے کوائف بمعہ انگوٹھوں کے نشانات جو ’نادرا‘ کے پاس محفوظ تھے اُن تک غیرمتعلقہ افراد نے رسائی حاصل کی۔ تکنیکی طور پر اِس عمل کو ’ہیکنگ (Hacking)‘ کہا جاتا ہے اور ہیکنگ کرنے والے کمپیوٹر علوم کے ماہر ایسے جرائم پیشہ عناصر ہوتے ہیں جو دوسروں کے کوائف یا مالیاتی کھاتوں تک رسائی حاصل کر کے اِس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA) کی جانب سے ’ہیکنگ‘ کی جو تفصیلات فراہم کی گئیں اُن کے مطابق شہریوں کے شناختی کوائف کا موبائل فون کنکشنوں کیلئے استعمال کیا گیا ہے اور اِن شناختی کوائف پر موبائل فون کنکشن حاصل کئے گئے۔ ’ایف آئی اے‘ کی جانب سے جاری ہونے والے یہ حقائق اور تفصیلات اِس حد تک سنجیدہ نوعیت کی ہیں کہ اِن سے متعلق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھی بحث ہوئی‘ جہاں قومی اسمبلی کے اراکین کو ’ایف آئی اے‘ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر (سائبر ونگ) پیش ہوئے اور انہوں نے اِس بات کی تصدیق کی کہ ’نادرا‘ کے پاس محفوظ شہریوں کے کوائف تک رسائی حاصل کی گئی ہے۔ جعل سازی سے قومی شناختی کارڈ اور دیگر شناختی دستاویزات کا حصول اگر ممکن ہے اور ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ جن میں بالخصوص افغان باشندوں نے پاکستانی شناختی دستاویزات حاصل کیں اور عوام کے کوائف بھی ’نادرا‘ کے پاس محفوظ نہیں تو کیا ایسی صورتحال میں ’الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (EVMs)‘ درست نتائج دیں پائیں گی؟ جن ممالک میں ’الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں‘ کے ذریعے شفاف انتخابات سرانجام پاتے ہیں‘ وہاں عوام کے کوائف (ڈیٹا) تک غیرمتعلقہ افراد (ہیکرز) کی رسائی کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا اور پاکستان کہ جہاں ماضی و حال میں رونما ہونے والے متعدد واقعات (عملی مثالوں) سے ثابت ہے اور یہ بات خود حکومتی ادارے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ’الیکٹرانک ڈیٹا‘ محفوظ نہیں تو ایسی صورت میں انتخابات کو غیرمتنازعہ بنانے کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ جو ہیکرز چند ہزار روپے کے عوض کسی دوسرے کے شخص کے نام پر موبائل کنکشن فروخت کرتے ہیں اگر اُنہوں نے زیادہ مالی فائدے کیلئے انتخابات کے الیکٹرانک نتائج تک رسائی حاصل کر لی اور کسی ایک بھی حلقے کے نتیجے میں ردوبدل کیا تو پورے کا پورا انتخابی عمل مشکوک ہو کر رہ جائے گا۔ لہٰذا جہاں عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی پائیداری اور دستیابی جیسے امور پر غوروخوض ہو رہا ہے اور بیرون ملک پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کی مدد سے ووٹ ڈالنے کا حق دینے کے تکنیکی مراحل طے ہو رہے ہیں تو وہیں ’قومی ڈیٹابیسیز‘ کو محفوظ بنانے پر بھی غور ہونا چاہئے کیونکہ یقینی امر ہے کہ جزوی یا کلی الیکٹرانک ووٹنگ کی صورت میں پاکستان کے دشمن ممالک کی کوشش ہوگی کہ وہ سیاسی عدم استحکام (افراتفری) پیدا کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے اور اُن کی کوشش ہوگی کہ وہ پاکستان کے قومی کوائف (ڈیٹابیسز) تک رسائی حاصل کر کے انتخابات کے نتائج پر منفی انداز میں اثرانداز ہوا جائے اور اِن (ممکنہ) ہیکرز حملوں کو روکنے کیلئے پہلے سے منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔’سائبر کرائمز‘ اور اِن خصوصی جرائم کے حوالے سے پاکستان میں سزائیں دینے کے عمل میں جہاں مصلحتیں آڑے ہیں وہیں قوانین و قواعد پر عمل درآمد سماجی و سیاسی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ جب تک قوانین اور اِن قوانین کے بارے میں خوف زیادہ نہیں ہوگا‘ اُس وقت تک محض قوانین متعارف اور لاگو کرنے سے صورتحال تبدیل نہیں ہوگی۔ یہ نکتہ اپنی جگہ اہم ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں ہر مسئلے کا حل قانون کی صورت میں ڈھونڈا جاتا ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ قوانین کی بہتات ہے لیکن اِن پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ سائبرکرائمز کو روکنے کی واحد صورت یہ ہے کہ اِن جرائم کو زیادہ سختی سے روکا جائے اور اِن کے مجرموں سے رعایت نہ کی جائے۔ توجہ طلب ہے کہ جب ’نادرا‘ قومی سطح پر بائیومیٹرک (فنگر پرنٹس) جمع کر رہی تھی تب بھی اِس عمل پر تنقید کی گئی تھی لیکن سیاست دان اور تکنیکی ماہرین ایک مختلف قسم کی بحث میں الجھے رہے‘ جو اِس پورے عمل پر لاگت اور اِس کی فعالیت سے متعلق تھی۔ ’نادرا‘ کے تحت الیکٹرانک کوائف جمع کرنے کا ایک مقصد امن و امان کی صورتحال میں اِس سے مدد لینا بھی تھا اور یہ مقصد بخوبی حاصل کر لیا گیا ہے لیکن اِس کے بعد عوام کے کوائف کو محفوظ رکھنے کو ضروری نہیں سمجھا جا رہا۔ کسی ملک کے رہنے والوں کے شناخت کوائف ایک امانت ہوتے ہیں‘ جنہیں محفوظ رکھنے اور اِن سے استفادہ کرنے کے طریقے یا تکنیکی امور اور قواعدوضوابط اربوں خرچ کئے جاتے ہیں اور ضروری نہیں کہ اِس میں بائیومیٹرک ہی کے ذریعے تصدیق ہو بلکہ تصدیق کیلئے دیگر صورتیں بھی استعمال کی جاتی ہیں جیسا کہ زیادہ تر ممالک شناخت کی پیدائش اور تعلیمی اسناد‘ پاسپورٹ‘ جائیداد کی ملکیت یا کرایہ نامے کی دستاویزات‘ بجلی گیس و ٹیلی فونز کے یوٹیلیٹی بلز اور اسی قسم کی دیگر دستاویزات کی ایک دوسرے سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے چونکہ تعلیمی دستاویزات حاصل کرنے میں بھی جعل سازی ممکن ہے اِس لئے ’کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ‘ متعارف ہوا اور بعدازاں معلوم ہوا کہ اِس کے کوائف بھی جعلی ہو سکتے ہیں۔ ریاست کے پاس نہ صرف شناختی کارڈ معطل (بلاک) کرنے بلکہ اِن کے حصول میں غیرقانونی طریقوں کو اختیار کرنے والوں کے خلاف سزاؤں کا بھی اختیار ہے‘ جس کا محدود پیمانے پر کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ الیکٹرانک نظام اگرچہ اپنی ذات اور ساخت میں خوبیوں کا مجموعہ ہے لیکن یہی خصوصیات کوائف کی خاطرخواہ حفاظت نہ ہونے کی وجہ سے شکوک و شبہات کا مجموعہ دکھائی دیتا ہے۔ اس حوالے سے کچھ اقدامات ضروری ہیں جن سے نہ صرف دستاویزات کو ڈیجیٹلائز کرنے کا مقصد حاصل ہو بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں۔