درس و تدریس سے متعلق نظریات اور تربیتی اطوار تبدیل ہو رہے ہیں۔ اِس تبدیلی کو 2 زاوئیوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ پہلا انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دستیابی‘ انتخاب اور اِس کا تعلیمی نفسیات سے متعلق پہلو ہے کہ شعبہئ تعلیم میں ٹیکنالوجی کا عمل دخل تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اب وہ تعلیمی ادارے صرف پیچھے نہیں بلکہ بہت پیچھے رہ جائیں گے اور اُن کے فیصلہ ساز ٹیکنالوجی کو اہمیت نہ دے کر صرف غلطی نہیں بلکہ مجرمانہ غلطی کے مرتکب ہوں گے کیونکہ مستقبل کا تعلیمی نظام ٹیکنالوجی سے کنارہ کش نہیں رہ سکے گا اور اِس تبدیلی کو قبول کرنے کے سوا چارہ نہیں ہوگا۔ ذہن نشین رہے کہ ٹیکنالوجی کے درس و تدریس میں عمل دخل پر مشتمل دائرہ گزشتہ 25 سال پر محیط ہے۔ درس و تدریس کی دوسری نئی شکل ’کورونا وبا (Covid19)‘ کے ظاہر ہونے کے بعد سامنے آئی ہے جب وبا سے حفاظت (حفظ ِماتقدم کے طور پر) یا اِس کے بارے ناکافی معلومات یا علاج معالجے کی ناکافی سہولیات ہونے کی وجہ سے خوف‘ اندیشے اور گھبراہٹ جیسے محرکات کی وجہ سے ایسی احتیاطی تدابیر (SOPs) وضع کی گئیں‘ جنہوں نے تعلیمی عمل کو یک دم مفلوج کر رکھ دیا اور اِس ”تعلیمی ہنگامی حالت“ سے نکلنے کے لئے ’آن لائن ایجوکیشن‘ کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال ہونے لگا ہے اور اِس تبدیلی کا دائرہ جنوری 2020ء سے شروع ہو کر تاحال جاری نظر آتا ہے۔ کورونا وبا نے صرف شعبہئ تعلیم ہی کو نہیں بلکہ سماجی و کاروباری معمولات کو بھی تبدیل کیا ہے اور اب جبکہ دنیا پندرہویں (15ویں) قسم کے کورونا جرثومے جسے یونانی لفظ ’اُومی کرون (Omicron)‘ کا نام دیا گیا ہے‘ تاکہ اِس سے قبل اور اِس کے بعد مزید جرثومے کی شناخت کرنے میں ماہرین اور عوام کو زیادہ مشکل نہ ہو‘ کے بارے میں اُسی نوعیت کی فکرمندی (تشویش) پائی جاتی ہے جیسا کہ جنوری دوہزاربیس میں کورونا وبا کو پھیلتے دیکھ کر ’دنیا‘ نے خود کو بے بس سمجھا۔ ’اومی کرون‘ کا قبل ازیں جرثوموں کے مقابلے فرق یا خصوصیت یہ ہے کہ یہ زیادہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اِس سے بچاؤ کے لئے جسمانی قوت مدافعت بڑھانے کی دوا (ویکسین) بھی فی الوقت (فوری طور پر) دستیاب نہیں۔ ذہن نشین رہے کہ اومی کرون (کورونا جرثومہ) کا سفر چوبیس لاکھ آبادی رکھنے والے براعظم افریقہ کے جنوبی ملک بوٹسوانا (Botswana) سے شروع ہوا‘ جہاں کورونا وبا شروع ہونے سے قریب دو لاکھ افراد اِس سے متاثر ہیں اور اِن میں سے قریب ڈھائی ہزار اموات ہو چکی ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر نے جنوب افریقیائی ممالک سے آمدورفت پر پابندی عائد کر دی ہے جبکہ جاپان نے صرف اَفریقی ہی نہیں بلکہ پوری دنیا سے آنے والے مسافروں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اقوام متحدہ کے دو اداروں (یو این کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ اور یو این ورلڈ ٹورسٹ آرگنائزیشن) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ (کورونا وبا کی ’نئی لہر‘ سے عالمی سیاحت کے شعبے کو 4 کھرب ڈالر کا نقصان ہوگا۔ قبل ازیں سال دوہزاراُنیس بیس میں 10فیصد اور دوہزاربیس اکیس کے دوران 20فیصد نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔کورونا وبا سے بہت پہلے ترقی یافتہ ممالک نے درس و تدریس میں ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کر دیا تھا اِس سلسلے میں سب سے پہلی تبدیلی ’سکولوں کے اندر سکول‘ بنانے کی صورت دکھائی دی‘ جس میں نصابی کتب کو الیکٹرانک اسلوب (ڈیجیٹائز) کرنے کے بعد اُن کے اسباق اور اِن اسباق میں پنہاں نظریات و تصورات کی منتقلی کے بارے حکمت عملی وضع کی گئی اور اِس سے بڑی بات (تبدیلی) یہ تھی کہ وہاں طالب علموں کو ”بچہ“ نہیں سمجھا گیا کہ جن کے خیالات اور تصورات میں تدریسی نفسیات نہیں سما سکتی اور اُنہیں جو کچھ بھی اور جیسے بھی پڑھایا جائے‘ وہ اِسے قبول کر لیں گے۔