ہنگامی حالات اور مفادات

کورونا وبا سے متعلق پاکستان کی قومی حکمت ِعملی میں ہنگامی بنیادوں پر ’علاج معالجے کے انتظامات‘ بھی شامل تھے‘۔ کورونا وبا کے پہلے دور (مارچ 2020ء) سے کی جانے والی خریداریوں سے متعلق یہ پہلو بھی ذہن نشین رہنا چاہئے کہ اُس وقت صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ’ہنگامی حالت  (ایمرجنسی)‘ تھی اور یہ ایمرجنسی اِس قدر شدید تھی کہ 10 روپے والا ماسک 100 روپے میں فروخت ہو رہا تھا اور وہ بھی بمشکل دستیاب تھا۔ اِسی طرح خون میں آکسیجن کی مقدار معلوم کرنے کا آلہ (Oximeter)‘ فاصلے سے درجہئ حرارت ناپنے کے آلات‘ آکسیجن کی فراہمی کے آلات‘ وینٹی لیٹرز‘ ہسپتالوں کے بستر‘ ادویات حتیٰ کہ جراثیم کش محلول سینی ٹائزرز اور ڈاکٹروں کے پہننے کے لئے خصوصی کپڑے یا چہرے ڈھانپنے کی شیلڈز وغیرہ جو اُن کے لئے کورونا وارڈوں میں کام کرنے کو محفوظ بنانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں کی دستیاب بھی دشوار تھی۔ طبی ضروریات کی کمی کے باوجود طبی اور معاون طبی عملے نے جان پر کھیل کر کورونا وبا کے مریضوں کا علاج کیا۔ یہ جذبہ اپنی جگہ لائق تحسین ہے لیکن سینکڑوں کی تعداد میں ڈاکٹر اور معاون طبی عملے کے اہلکار کورونا وبا سے نہ صرف متاثر ہوئے بلکہ درجنوں کی ہلاکت نے اِس بات کو ثابت کیا کہ کورونا وبا کے علاج معالجے کی سہولیات ناکافی ہونے کے علاؤہ محفوظ بھی نہیں تھیں۔یعنی یہ ایک مشکل صورتحال تھی جس سے پاکستان دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز سے نکلا۔تاہم یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے اور ’کورونا وبا‘ کی نئی اور زیادہ مہلک قسم کے پھیلنے سے متعلق اطلاعات آ رہی ہیں اور دنیا کے کئی ممالک نے بیرونی دنیا سے آمدورفت (سفری معمولات) سوفیصد معطل کر دیئے ہیں۔ پاکستان نے تاحال ایسا نہیں کیا اور اُن جنوبی افریقیائی ممالک سے بھی پاکستانیوں کو 5 دسمبر تک وطن واپس آنے کی مہلت دی گئی ہے جہاں کورونا وبا کی نئی قسم (اُومنی کرون) زیادہ بڑی تعداد میں لوگوں کو متاثر کر چکی ہے۔ چونکہ پاکستان میں موسم سرما جبکہ جنوبی افریقیائی ممالک (خطے) میں اِس وقت موسم گرما ہے تو پاکستان کے قومی فیصلہ سازوں کو بیرونی دنیا سے آمدورفت مکمل طور پر بند کر دینی چاہئے کیونکہ بعدازاں ایسا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور ایک مرتبہ پھر وہی ہنگامی حالت ظاہر ہوگی‘اسلئے بروقت منصوبہ بندی ضروری ہے اور مسئلے کے حجم کو شروع ہی سے کنٹرول کرنا ضروری ہے تاکہ وہ نہ بڑھے اور ایک بار پھر اس صورتحال سے دوچار نہ ہونا پڑے جس سے مشکل کے ساتھ پاکستان نکلا۔