خیبر پختونخوا کابینہ نے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ترمیمی ایکٹ 2020کی منظوری دیدی ہے۔نئے قانون کا نفاذ صوبائی اسمبلی کی منظوری سے مشروط ہوگا۔ ایکٹ کے تحت بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے ملزموں کیلئے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں جن میں پھانسی اور تاحیات عمر قیدکی سزا شامل ہے۔سزامیں کسی قسم کی معافی یا رعایت نہیں دی جائے گی۔ کا بینہ کمیٹی نے پھانسی کی سزا کی و یڈیو بنانے اور اسے عام کرنے کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔ پھانسی یا عمر قید کی سزا کے ساتھ جرمانہ بھی عائد کیاگیاہے جو 20لاکھ ر وپے سے کم نہ ہوگا اور اسے 50لاکھ روپے تک بڑھایا جاسکتا ہے۔کابینہ نے فیصلہ کیا کہ چائلڈ پورنو گرافی میں ملوث افراد کو 14سال قید با مشقت اور پچاس لاکھ تک جرمانہ کی سزا ہوگی۔ بچوں کی سمگلنگ کے دھندے میں ملوث افراد کو زیادہ سے زیادہ 25سال اور کم سے کم 14سال قید با مشقت اور 50لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ پولیس تحقیقات کے لیئے آڈیو، ویڈیو آلات بشمول ڈی این اے بطور ثبوت عدالت میں پیش کرنے کی مجاز ہوگی۔ان جرائم میں ملوث افراد کے ناموں کا رجسٹر میں باقاعدہ اندراج کیا جائیگا۔ اور ان پر پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے پر پابندی ہوگی۔یہ نام چائلڈ پروٹیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کئے جائیں گے۔ اور ان کا ڈیٹا نادرا سے بھی شیئر کیا جائے گا۔ اور عوام کی ان تک رسائی یقینی بنائی جائیگی۔ جن افراد کا رجسٹر میں اندراج ہوجائے اسے کسی پبلک یا پرائیویٹ ملازمت دینے کی صورت میں ادارے کے مالک یا سربراہ کو 5سال قید یا ایک کروڑ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس نوعیت کے جرائم کا خاتمہ سخت قوانین سے ہی ہو سکتا ہے نرمی برتنے اوراصلاح و تربیت سے اگر مسئلہ حل ہوتا تو کب کا ہو چکا ہوتا تاہم وقت گزرنے کے ساتھ یہ مسئلہ گھمبیر ہوتا گیاجس کو حل کرنے کی اب موثر کوشش کی گئی ہے۔صوبائی کابینہ نے نیوپشاورسٹی میں پشاورپریس کلب کے ممبران کو 10 مرلہ پلاٹس کی فراہمی اور انفارمیشن کمپلیکس کیلئے اراضی مختص کرنے کی بھی منظوری دیدی۔کا بینہ نے خیبر پختونخوا پریس، نیوز پیپرز، نیوز ایجنسیز اینڈبک رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2021کی منظوری دے دی ہے۔ جس کے تحت اخبار کی ڈیکلیریشن صرف خونی رشتے کو ٹرانسفر کرنے کی شرط ختم کردی گئی ہے۔ صوبائی کا بینہ نے صوبے کی سات سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کی تعیناتی کیلئے اکیڈمک سرچ کمیٹی کیلئے ناموں کی منظوری دے دی ہے جو چانسلر کی باقاعدہ منظوری کیلئے بھیجے جا ئیں گے۔خیبر پختونخوا ملک کا پہلا صوبہ ہے جس نے بچوں کے ساتھ زیادتی کے تدارک کیلئے سخت قوانین مرتب کئے ہیں۔گذشتہ چند سالوں کے دوران ملک کے مختلف شہروں میں کمسن بچوں اور بچیوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد گرفتاری کے خوف سے قتل کرنے کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ معاشرے میں اس قسم کے جرائم انتہائی شرمناک ہیں۔ ایسے عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے بغیر ان سنگین ترین جرائم پر قابو پانا مشکل ہے۔ صوبائی کابینہ نے اس قانون کی منظوری دے کر بلاشبہ ایک مستحسن قدم اٹھایا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس قانون پر اس کی روح کے مطابق عمل بھی کیاجائے۔ ہمارے ہاں معاشرتی جرائم، کرپشن، رشوت ستانی،ایذا رسانی، کسی کی جان و مال اور عزت و آبرو کو داؤ پر لگانے کے خلاف قوانین توموجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کے فقدان سے مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔ حکومتی رٹ قائم کرنے، قانون کی بالادستی اور لوگوں کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کے لئے حکومت کو اپنے وضع کردہ قوانین کے نفاذ کیلئے بھی عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ کیونکہ قوانین سے زیادہ ان پر عملدرآمد کی اہمیت ہوتی ہے اور کسی معاشرے اور ملک میں بہتری اسی صورت میں ہی سامنے آسکتی ہے جب وہاں موجود قوانین کا عملی نفاذ ہو چکا ہو دیکھا جائے تو وطن عزیز میں ہر شعبے کے حوالے سے موثر قانون سازی ہوئی ہے اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ قانون سازی کے شعبے میں کوئی نمایاں خامی نظر آئی ہو بلکہ اگر کوئی کمی ہے تو وہ قوانین کا موثر نفاذ نہ ہونا ہے۔