ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں فضائی آلودگی سے شہریوں کی عمر لگ بھگ سوا چار سال گھٹ رہی ہے۔فضائی آلودگی کو ماپنے کے لیے کسی مانیٹر نگ آلے کی ضرورت نہیں، جہاں فضا میں گھٹن محسوس ہونے لگے، آسمان نیلے کے بجائے سرمئی نظر آنے لگے، حدنگاہ کم ہوجائے، عمارتیں دھندلی نظر آنے لگیں اور سانسوں کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے آلودہ ذرات طبیعت بوجھل کرنے لگیں تو سمجھ جائیں کہ آپ انتہائی آلودہ فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں، یہ فضائیں آپ سے صحت مند زندگی گزارنے کا حق چھین رہی ہیں۔ ایسی فضاؤں میں 24 گھنٹے گزارنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے 10کے قریب سگریٹ پی لئے ہیں۔ائیرکوالٹی انڈیکس لائف کے مطابق فضائی آلودگی سے لاہورکے شہریوں کی عمر 5 سال، کراچی ساڑھے تین سال اور پشاور میں رہنے والوں کی عمر ڈھائی سال کم ہورہی ہے۔ فضائی آلودگی کے حوالے سے پاکستان دنیا چوتھا آلودہ ترین ملک بن گیا ہے، ملک میں گذشتہ بیس سالوں کے دوران آلودگی میں سالانہ 20 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔ جنوبی پنجاب اور شمالی سندھ آلودگی میں سر فہرست ہیں۔فضائی آلودگی کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں فصلوں کے بھوسے اور کوڑا کرکٹ جلانا، بھٹہ خشت اور کارخانوں کی چمنیوں سے اٹھنے والا زہر آلود دھواں، گردوغبار، کھٹارہ بسوں، ویگنوں، ٹیکسیوں، رکشوں سے نکلنے والا دھواں اور صوتی آلودگی بھی شامل ہے۔فائربریگیڈ، ایمبولنس اور وی آئی پیز کی سیکورٹی ڈیوٹی کے دوران ہوٹرز کا استعمال، پریشر ہارن، لاوڈ سپیکرز کا بے جا استعمال اوراونچی آواز میں میوزک بجانا صوتی آلودگی میں شامل ہیں۔ آلودگی پھیلانے میں 99فیصد انسانوں کا اپنا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہم نے قدرتی ماحول کو اپنے مادی مفادات کیلئے نقصان پہنچانے کی ٹھان لی ہے جس کے ذریعے ہم دوسروں کے ساتھ خود اپنی زندگیوں کو بھی داؤ پر لگا رہے ہیں۔پشاور، اسلام آباد، لاہور، کراچی اور دیگر شہروں میں نئی نئی ہاوسنگ سکیمیں، ٹاؤن شپس اور کالونی بن رہی ہیں۔زرخیز زمین، باغات اور کھیت کھیلیان اب کنکریٹ کے جنگلوں میں تبدیل ہورہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کیلئے پینے کے صاف پانی کی فراہمی، نکاسی آب کا مناسب بندوبست کرنا، کوڑا کرکٹ کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانا، پارکس کا قیام حکومت کیلئے ممکن نہیں اس وجہ سے آلودگی میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی بھی فضائی آلودگی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ ٹمبرمافیا کے آگے سرکاری مشینری ناکام ہوچکی ہے۔ گلیات، کاغان، ناران، شانگلہ، بونیر، سوات، دیر اور چترال کے جنگلات مناسب حفاظت نہ ہونے سے چٹیل پہاڑوں میں تبدیل ہورہے ہیں۔ حکومت نے خیبر پختونخوا میں بلین ٹری اور وفاق کی سطح پر ٹین بلین ٹری کا منصوبہ شروع کیا ہے جس کی عالمی سطح پر کافی پذیرائی ہوئی ہے۔ لگائے گئے پودوں کی پوری نگہداشت اور حفاظت کی گئی تو آئندہ پندرہ بیس سالوں میں وہ تناور درخت بن سکتے ہیں۔ تب تک جنگلوں میں درختوں کی کٹائی پر مکمل پابندی لگانے اور شجرکاری مہم میں عوام کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔اگر حکومت شہریوں کو مفت پھلدار اور سایہ دار پودے فراہم کرے اور اچھی شجرکاری پر ان کی حوصلہ افزائی کرے تو شجرکاری مہمات کو زیادہ نتیجہ خیز بنایاجاسکتا ہے۔ فضائی آلودگی کے بارے میں شہریوں میں آگاہی مہم چلانا بھی ضروری ہے اس دوران لوگوں کو بتایاجائے کہ وہ قدرتی ماحول کو آلودگی سے بچانے میں اپنا کردار کیسے ادا کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں بڑے ہوٹلوں میں سمینار، مذاکرے اور مباحثے کرانے کے بجائے گھر گھر جاکر آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ آلودگی سے ان کی اپنی، ان کے بچوں اور آنے والی نسلوں کی زندگی خطرے پڑسکتی ہے۔ اس دقت دنیا کو جن مسائل کاسامنا ہے ان میں ماحول سے متعلق مسائل سر فہرست ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کا راستہ اگر اب نہیں روکا گیا اور اس حوالے سے اقدامات نہیں کئے گئے تو آنے والے وقتوں میں یہ مسئلہ مزید گھمبیر صورت اختیار کرجائیگا۔ اس وقت بھی دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث جو اموات ہو رہی ہیں وہ ہتھیاروں اور جنگوں سے ہونے والی اموات سے کہیں بہت زیادہ ہیں۔ دنیا بھر میں سیلابوں، خشک سالی اور قحط جیسے قدرتی آفات میں اضافہ ہوگیا ہے اور اس وقت افریقہ کے اکثر ممالک کو قحط سالی جیسی صورتحال کا سامنا ہے اور وہاں پر غذائی قلت سے اموات میں بے تحاشا اضافہ ہونے لگاہے۔ کچھ اسی طرح کی کیفیت ایشیاء میں بھی ہے۔