لمحہ فکریہ

دانشمندی اِسی میں ہے کہ بدترین حالات کیلئے تیاری کرتے ہوئے اچھے دنوں کی اُمید رکھی جائے۔ اِس جامع عمل کو ”منصوبہ بندی“ کہا جاتا ہے۔ کورونا وبا کی ’نئی لہر‘ سے متعلق منصوبہ بندی کے دوران ایک مرحلے پر جب خیبرپختونخوا حکومت کی زیرنگرانی چلنے والے مختلف ’بلڈ بینک‘ کی کارکردگی بھی زیرغور آئی اور اِس سلسلے میں عوامی شکایات کو دیکھنے کے بعد فیصلہ سازوں نے طے کیا کہ پشاور‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور ایبٹ آباد میں سرکاری بلڈ بینکس کو نجی اداروں کو ایک معاہدے کے تحت خاص مدت کے لئے اجارے (لیز) پر دے دیئے جائیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ عوام کو معیاری اور سستی سہولیات کی دستیابی وہ ہدف ہے جس کا حصول ہر طریقے سے ممکن بنانا حکومتی پالیسی ہونی چاہئے اور اگر نجی شعبہ یہ ہدف ممکن بناتا ہے تو اس سے استفادہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں تاہم اس کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ اس میں ناکامی کے امکانات کو ختم کیا جا سکے کیونکہ ماضی میں ہر غلطی کو درست کرنے کے لئے دوسری غلطی کرنے کی روش نے شعبہئ صحت کو  اس مقام پر پہنچایا ہے  جہاں اب طب کی تعلیم سے لیکر اِس کے نتائج (علاج معالجے) تک ہر شعبے میں بہتری کی گنجائش پہلے سے زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔خیبرپختونخوا حکومت کے زیرانتظام صحت سے متعلق فیصلہ سازی کیلئے مختلف شعبے قائم کئے گئے ہیں جن میں علاج اور علاج گاہوں کی فعالیت میں اضافے کے لئے قائم ’ہیلتھ فاؤنڈیشن‘ کے ذریعے ’بلڈ بینکس‘ کی نجی کاری کیلئے پیشکشیں (Bids) طلب کر لی گئی ہیں اور اِن پیشکشوں میں سے ’خیبرپختونخوا پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ایکٹ 2020ء‘ کی کسوٹی پر جانچ پڑتال کے ذریعے انتخاب کیا جائے گا۔ ذہن نشین رہے کہ جن بلڈ بینکس کو نجی شعبے کے حوالے کیا جائے گا وہ متحدہ مجلس عمل کے دور حکومت میں بنائے گئے تھے اور اِن کی کارکردگی گزشتہ پانچ برس کے دوران نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ سابق دور حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مذکورہ بلڈ بینک اِس حال کو پہنچے یا پہنچائے گئے کہ اب اُن کو نجی شعبے کے حوالے کئے بغیر چارہ نہیں رہا۔ ذہن نشین رہے کہ سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے کے آلات خریدنے اور دیگر ضروریات سمیت تعمیراتی اخراجات برداشت کرنے کے بعد اگر بنی بنائی سہولیات نجی شعبے کے حوالے کر دی جائیں تو اِس سے صاف عیاں ہے  سرکاری شعبے کی کارکردگی بہتر بنانے کی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔اور کیا یہ لمحہئ فکریہ اپنی جگہ پریشان کن نہیں کہ جو نجی شعبہ سرکاری ہسپتالوں اور بلڈبینکس کے مالی و انتظامی امور کو درست کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن یہی کام زیادہ تعداد میں‘ زیادہ تعلیمی قابلیت و اہلیت اور تجربہ رکھنے والے سرکاری اہلکاروں کی فوج ظفر موج نہیں کر سکتی! بلڈ بینکس بنانے کا مقصد مریضوں کو مفت خون کی فراہمی کرنا تھی۔  بلڈ بینکس کی مقصدیت میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ یہ خون کے عطیات دینے کی جانب راغب کرنے کیلئے عوامی شعور میں اضافہ کرنا ہے اور یہی وہ نظرانداز پہلو ہے جس کی نظراندازی جاری رہنے کے بارے میں پورے یقین سے دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔