شکوہ‘ تقاضا بے سود 

آدھی خبر یہ ہے کہ ”محکمہئ اوقاف خیبرپختونخوا“ کی جانب سے اعدادوشمار جاری کئے گئے ہیں جن کے مطابق مختلف کاروائیوں میں 79 کنال اراضی واگزار کرائی ہے۔ محکمہئ اوقاف کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں اپنی ہی کامیابیوں کا شمار پیش کرتے ہوئے سیکرٹری اوقاف‘ ایڈمنسٹریٹر اوقاف‘ ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ عملے کو مبارک باد دی گئی ہے۔ پوری خبر یہ ہے کہ اکیس نومبر دوہزاراکیس (اتوار‘ ہفتہ وار تعطیل) کے روز وزیراعظم عمران نے محکمہئ اوقاف کی اراضی کے بارے میں ’ڈیجیٹل نقشے‘ کا مطالعہ اور اِس سے متعلق اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”اوقاف کی قبضہ شدہ اراضی واگزار کرائی جائے جس کے پہلے مرحلے میں ساڑھے پانچ کھرب روپے سے زائد مالیت کی قبضہ شدہ اراضی کی نشاندہی کی گئی۔ وزیراعظم کے سماجی رابطہ کاری کے ذریعے (ٹوئیٹر اکاؤنٹ) سے جاری شدہ پیغام میں محکمہئ اوقاف کی اراضی سے متعلق کئے گئے سروے کے اعدادوشمار بھی جاری کئے جن کے مطابق قبضے کے لحاظ سے سرفہرست تین شہروں (اسلام آباد‘ کراچی اور لاہور) میں 2.63 کھرب روپے مالیت کی اراضی قبضہ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ستمبر 2021ء میں وزیراعظم نے محکمہئ اوقاف کی ملکیت اراضی کے ڈیجیٹل نقشہ (Digital Map) بنانے کا حکم دیا تھا تاکہ جس طرح اوقاف کی اراضی قبضہ کی گئی ہے‘ اُسی تکنیکی انداز میں قبضہ مافیا کے خلاف کاروائی کی جائے لیکن بنیادی بات یہ تھی کہ پورے ملک اور قریب سبھی متعلقہ شہروں میں محکمہئ اوقاف کے دفاتر موجود ہونے کے باوجود کھربوں روپے کی اراضی قبضہ کیسے ہو گئی۔ وزیراعظم کی حکم پر صوبائی حکومتیں اور محکمہئ اوقاف کے انتظامی نگران حرکت میں تو آ گئے ہیں اور قبضہ شدہ اراضی کی واگزاری کے اعلانات بھی کئے جا رہے ہیں لیکن اس سلسلے کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے اور اس عمل کو مسلسل بھی جاری رکھنا ہے۔۔ اِس سلسلے میں قصوروار پرنٹ و الیکٹرانک ’ذرائع ابلاغ‘ بھی ہیں جو حزب اقتدار اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی  جماعتوں کے قائدین کے نت نئے بیانات کو تو نمایاں جگہ ملتی ہے جبکہ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ کسی بھی سرکاری محکمے کی قبضہ شدہ اراضی سے متعلق موجود حکومتی اعدادوشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن درپردہ عناصر کی کھوج لگائی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں لیکن جہاں قانون کے ہاتھ سکڑے اور بندھے نظر آئیں وہاں ذرائع ابلاغ عوامی شعور میں اضافے کے ذریعے دباؤ بنا سکتے ہیں لیکن ’تحقیقی صحافت (investigative journalism)‘ کے حوالے سے پاکستان میں ہونے والا کام بہت ہی کم ہے۔وفاقی حکومت صرف محکمہئ اوقاف ہی نہیں بلکہ تمام سرکاری اراضی کا سروے کروا رہی ہے جس میں اب تک ملک کے مجموعی رقبے کا 81 ہزار 209 مربع کلومیٹر (88 فیصد) سروے مکمل ہو چکا ہے اور اِس میں چونکہ جنگلات بھی آتے ہیں اِس لئے سروے کے نتائج خاصے دلچسپ ہیں۔ اب تک ہوئے سروے میں 29 ہزار40 مربع کلومیٹر پر جنگلات کی نشاندہی کی گئی ہے‘ جن کا 6 لاکھ 75 ہزار 615 ایکڑ رقبہ قبضہ ہے جبکہ ریلویز کا 8 ہزار 256 ایکڑ‘ 38 ہوائی اڈوں کے اطراف میں شہری ہوا بازی کا 816 ایکڑ رقبہ‘ قومی شاہراؤں کا 52 ارب روپے مالیت کا رقبہ قبضہ ہو چکا ہے جبکہ محکمہئ اوقاف کی 117 ارب روپے مالیت کی راضی قبضہ ہے۔ اگر پاکستان کی مجموعی قبضہ شدہ اراضی کی مالیت دیکھی جائے تو اندازہ ہے کہ یہ قریب چھ ہزار (5595) ارب روپے کی ہے! تصور کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح سرکاری اراضی کی ’مال مفت دل بے رحم‘ کی طرح لوٹ کھسوٹ کی گئی ہے اور اِس میں صرف مالی و سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے کردار ہی نہیں بلکہ بدعنوانی میں بلاتفریق و امتیاز حکومتی محکموں کے اہلکار بھی ملوث ہیں۔ یہ پہلو بھی ذہن نشین رہے کہ سب سے زیادہ قبضہ ہوئی سرکاری اراضی کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے! سرکاری اور وقف شدہ املاک اور اراضی کے قبضہ ہونے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ قبضہ مافیا نے قبرستانوں‘ ندی نالوں‘ دریاؤں‘ سبزہ زاروں‘ باغات اور جنگلات کی اراضی بھی قبضہ کر رکھی ہے اور ایسا کسی ایک شہر یا صوبے میں نہیں ہو رہا بلکہ یہ ملک گیر مسئلہ ہے۔