مہنگی اشیاء کے استعمال میں اضافہ

حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ ملک میں کافی مہنگائی ہے مگرخوش آئند بات یہ ہے کہ مہنگی چیزوں کا استعمال بھی بڑھ گیا ہے۔اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اگر قوت خرید سے باہر ہوتیں تو ان چیزوں کااستعمال کم ہوتا۔یہاں استعمال میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس سے قبل حکومت کی طرف سے پاکستان اور دیگر ممالک کی قیمتوں کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیاجاتا رہا ہے اور عوام کو باور کرایاجاتا ہے کہ ہم پٹرول، ڈیزل، فرنس آئل، ایل پی جی، ایل این جی ہم دوسرے ممالک سے درآمد کرتے ہیں اس کے باوجود انہیں خطے کے دیگر ملکوں کی نسبت کم نرخوں پر عوام کو فروخت کیاجارہا ہے۔ بجلی، قدرتی گیس، گندم، دالیں، کھانے کا تیل، گھی وغیرہ ملک کی اپنی پیدوار ہیں ان کی قیمتیں دوسرے ملکوں کی نسبت کیوں بڑھ رہی ہیں، اس حوالے سے بھی توجیہات موجود ہوں گی۔ایک لطیفہ گذشتہ پچاس سالوں سے ہر حکومت سناتی رہی ہے۔اور اس لطیفے پر ہربار لوگوں کی ہنسی چھوٹتی ہے کہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایاگیا۔ پرانے ٹیکسوں کی شرح بڑھائی گئی ہے حکومت نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ ”عام آدمی“ متاثر نہ ہو۔ ویسے اگر بجٹ اور منی بجٹ سے متاثر بھی ہوجائے توحکومت کے لئے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ وہ خود سے باہر نکل کر سڑکیں بلاک کرسکتا ہے نہ لانگ مارچ اور دھرنا دے سکتا ہے۔ ان کاموں پر اُکسانے والے اوپر کے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں چونکہ اوپر والوں کی اوپر کی آمدنی بھی اچھی خاصی ہوتی ہے اس لئے انہیں مہنگائی سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی انہیں مزدور اور تنخواہ دار طبقے کی مشکلات کا ادراک ہے۔ جب حکومت ٹیکس لگاتی ہے تو کارخانے دار اور تاجربھی اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھادیتے ہیں بجلی ان پر گرتی ہے جو یہ مصنوعات استعمال کرتے ہیں۔کسی حکومت نے آج تک درآمدی اشیاء اور سامان تعیش پر ٹیکس نہیں لگایا ہمیشہ چینی، دالوں، مصالحہ جات، گھی، کوکنگ آئل، آٹے اوران دوسری اشیاء پر ٹیکس لگایاجاتا ہے جو گھروں میں روزانہ استعمال ہوتی ہیں۔ حکومت کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ چیزیں مہنگی ہونے کے باوجود ان کے استعمال میں کمی نہیں آئی حالانکہ معاشیات کا یہ اصول ہے کہ طلب بڑھنے سے رسد کم اور قیمت زیادہ ہوتی ہے جب رسد بڑھ جائے تو قیمت گھٹ جاتی ہے۔ ہماری حکومت میں شامل معاشی ماہرین کو شاید اس پہلو پر سوچنے کا خیال نہیں آیا کہ بیس سال پہلے کے مقابلے میں ہمارے ملک کی آبادی میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے اس وقت اگر گندم کی کھپت 40لاکھ ٹن تھی تو آج 80لاکھ ٹن ہوگئی ہے کیونکہ لوگ صبح، دوپہر اور شام تین وقت کھاناکھاتے ہیں اور اپنے گھر کا کھانا کھاتے ہیں، وہ ان لوگوں میں سے نہیں جن کا زیادہ وقت دعوتوں، سرکاری ضیافتوں، ظہرانوِں، عشائیوں اور اندرون و بیرون ملک کے دوروں میں گذرتا ہے اور انہیں کھانے پینے کا بل نہیں دینا پڑتا۔ اس وجہ سے انہیں مہنگائی کی ہوا نہیں لگتی۔امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔