قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 133 لاہور کے ضمنی اانتخابات میں مسلم لیگ ن کی امیدوار شائستہ پرویز ملک نے کامیابی حاصل کرلی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے امیدوار اسلم گل کو 14498 ووٹوں کی اکثریت سے شکست دیدی۔ ضمنی انتخابات میں کامیابی کو مسلم لیگ نے اپنی مقبولیت پر مہر تصدیق قرار دیا تو دوسری طرف پیپلز پارٹی بھی شکست کے باوجود جشن منارہی ہے کہ پچھلے الیکشن میں انہیں پانچ ہزار ووٹ ملے تھے اب ان کے ووٹرز کی تعداد 30ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جو پنجاب میں پی پی پی کی مقبولیت کا ثبوت ہے۔مسلم لیگ کے رہنما پرویز ملک کے انتقال سے خالی ہونے والی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف اپنے نامزد امیدوارجمشید اقبال چیمہ کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے پر پہلے ہی مقابلے کی دوڑ سے باہر ہو چکی تھی۔ اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 40 ہزار 85 ہے جن میں 2 لاکھ 33 ہزار558 مرد اور 2 لاکھ 6 ہزار 927 خواتین ووٹرز شامل ہیں۔ اس حلقے کے ضمنی انتخابات میں ٹرن آؤٹ 18.89 فیصد رہا۔ جبکہ 2018کے عام انتخابات میں یہاں ٹرن آؤٹ 51.89فیصد رہا تھا۔ انتخابات میں کامیاب ہونے والی شائستہ پرویز ملک کو ان کے شوہر کی وفات کے باعث ہمدردی کے ووٹ بھی ملے ہیں۔ چار لاکھ چالیس ہزار ووٹوں میں سے جیتنے والے امیدوار کے حق میں 46ہزار 811 ووٹ آئے جو مجموعی ووٹوں کا ایک چوتھائی سے بھی کم ہے۔ پرویز ملک مرحوم نے اس حلقے سے 89ہزار 699ووٹ حاصل کئے تھے۔ ان کی اہلیہ ہمدردی کے ووٹ ملنے کے باوجود ان سے آدھے ووٹ بھی نہیں لے سکی۔ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ عام انتخابات کے مقابلے میں تمام جمہوری ملکوں میں ضمنی انتخابات کے موقع پر کم ووٹ پڑتے ہیں۔تاہم ہمارے ہاں ووٹ پول کرنے کی شرح مسلسل گر رہی ہے۔ عام انتخابات میں بھی مجموعی طور پر 42فیصد ووٹ پول ہوئے۔ جن ملکوں میں جمہوریت مستحکم ہے وہاں پچاس فیصد سے کم ٹرن آؤٹ کی صورت میں دوبارہ پولنگ کرائی جاتی ہے۔ انتخابات میں عام لوگوں کی عدم دلچسپی ہمارے سیاست دانوں اور پارلیمانی جمہوری نظام کے داعیوں لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوری نظام دنیا میں مروج نظام ہائے حکومت میں سب سے بہترین نظام ہے مگر اس نظام کی خوبیاں سوئزرلینڈ، برطانیہ، فرانس، امریکہ اور دیگر مستحکم جمہوری ملکوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں ہمارے ہاں کا جمہوری نظام ان کا چربہ ہے۔ اور چونکہ موجودہ جمہوری نظام سے عوام کو ریلیف نہیں مل رہا اس وجہ سے لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ ووٹرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں ہے وہ ملک میں کیا جمہوریت لائیں گی۔ دیکھا جائے توجمہوری اور انتخابی عمل میں عوام کی عدم دلچسپی ملکی سیاست اور جمہوریت کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ اگر ملک کی سیاسی جماعتیں جمہوریت اور سیاست پر لوگوں کا اعتماد بحال کرنا چاہتی ہیں تو انہیں مل بیٹھ کر کوئی میثاق جمہوریت مرتب کرنا ہوگا۔اور جہاں سیاسی جماعتوں کے درمیان اس نکتے پر مفاہمت ہو کہ وہ جمہوری نظام کے بقا اور مضبوطی کیلئے یکجاں ہو جائیں وہاں جمہوریت کو محض سیاسی جماعتوں کے حکومت میں آنے جانے کا ذریعہ نہ سمجھا جائے بلکہ اسے عام آدمی کے مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ ثابت کرنا ہوگا۔ صرف اسی طرح ہی عوام کا جمہوری نظام پر اعتماد برقرار رہے گا اور وہ اس سے جڑے مراحل میں دلچسپی کا مظاہرہ کریں گے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں ایک اہم مسئلے کی طرف توجہ مبذول کی ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہر خرابی میں سدھار کا راستہ نکلتا ہے تاہم ضرورت اس مسئلے کو سمجھنے اور اس کو سلجھانے کے لئے مخلصانہ کوششوں کی ہے اور جب بات جمہوریت کی ہو تو یقینا اس معاملے میں اہم ذمہ داری سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ باہمی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے جمہوریت پر عوامی اعتماد کو برقرار رکھنے کے نکتے پر متفق ہوں۔ اس امر کی آج کل جتنی ضرورت ہے شاید ہی ماضی میں کبھی رہی ہو اور تمام جماعتوں پر اس ضمن میں یکساں ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔