ذہن نشین رہے کہ سال 2020ء کے دوران پاکستان میں بیروزگاری قریب پانچ فیصد (4.65) تھی جو 2019ء کے مقابلے قریب ایک فیصد زیادہ تھی۔ حکومتی اعدادوشمار ہی پر اِکتفا کیا جائے تو ہر سال بیروزگاری میں ایک فیصد یا اِس سے زیادہ کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ برسرزمین حقائق اِس سے زیادہ تلخ ہیں اور صرف بیروزگاری ہی نہیں بلکہ معاشی و کاروباری سرگرمیوں میں کمی کی وجہ سے دیہی علاقوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی کے رجحان میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔پاکستان میں ملازمین کی تنخواہوں سے متعلق ایک سے زیادہ قوانین موجود ہیں‘ جن میں ’پے منٹ آف ویجیز ایکٹ 1936ء‘ اور ’منیمم ویجیز آرڈیننس 1961ء‘ قابل ذکر ہیں۔ اِن دونوں قوانین کے ملازمین کے مالیاتی حقوق اور کام کاج کے حالات کار یا اوقات کار کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ اوّل الذکر قانون کے تحت ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کی بھی حد مقرر ہے تاکہ کسی کارکن کی خراب کارکردگی کی بنیاد پر اُس کی تنخواہ سے ایک شرح سے زیادہ کٹوتی نہ کی جا سکے جبکہ کم سے کم تنخواہ کے قانون (Minimum Wages Ordinance 1961) کا اطلاق صرف سرکاری ملازمین پر نہیں ہوتا بلکہ اِس کی ذیل میں جملہ نجی ملازمین بھی آتے ہیں اور اِسی قانون کے تحت صوبائی حکومتیں بھی سالانہ کم سے کم تنخواہ کی شرح سے متعلق احکامات جاری کرتی ہیں لیکن اُن پر عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آتا جیسا کہ صوبہ پنجاب اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی حدود میں ملازم کی ”کم سے کم ماہانہ تنخواہ“ 20 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے جو یومیہ سات سو روپے سے کچھ زیادہ ہے۔ رواں برس یکم جولائی سے خیبرپختونخوا میں ملازم کی کم سے کم تنخواہ 21 ہزار روپے مقرر ہے جو کام کاج کے ایام کی حساب سے یومیہ 800 روپے بنتے ہیں۔ صوبہ سندھ میں کم سے کم تنخواہ کے حوالے سے خصوصی قانون ”سندھ منیمم ویجیز ایکٹ 2015ء“ موجود ہے جہاں بغیر کسی ہنر ملازمین کی کم سے کم ماہانہ تنخواہ ”25 ہزار روپے“ مقرر ہے۔ 16 اکتوبر 2021ء کے روز ’سندھ ہائی کورٹ‘ نے صوبائی حکومت کو ہدایات جاری کیں کہ وہ غیرہنرمند افرادی قوت کے لئے کم سے کم ماہانہ تنخواہ بارے اعلامیہ (نوٹیفیکیشن) جاری کرے کیونکہ سندھ حکومت نے عمومی مزدور کی تنخواہ ساڑھے سترہ ہزار روپے سے بڑھا کر پچیس ہزار روپے کرنے کا اعلان تو کر رکھا ہے لیکن اِس بارے میں فوری اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا جس پر عدالت کو مداخلت کرنا پڑی تاکہ ’سندھ میں کم سے کم تنخواہ بارے قانون (منیمم ویجیز ایکٹ)‘ پر عمل درآمد کیا جا سکے۔اور دیکھا جائے تو ہمارے ہاں اصل مسئلہ ہی قواعد و ضوابط پر عمل نہ ہونا ہے یعنی جو قانون اور قواعد و ضوابط پہلے سے موجود ہیں اگر ان پر ہی پوری تندہی سے عمل کیا جائے تو زیادہ تر مسائل حل ہوسکتے ہیں، اس کے لئے نئی قانون سازی کی ضرورت ہی نہیں۔ جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے تو اس میں بین الاقوامی سطح پر مختلف بحرانوں نے ہر ملک کی معیشت کو متاثر کیا ہے جن میں پاکستان سر فہرست ہے۔ ایسے میں بے روزگاروں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہواہے اور لوگ کسی بھی شرط پر روزگار حاصل کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جن میں ملازمین کے استحصال کی کئی صورتیں نکل آتی ہیں۔ بے روزگاری سے تنگ آئے لوگوں کو جو بھی روزگار ملتا ہے وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ ان کو ملنے والا معاوضہ کم از کم معاوضے سے کم ہے یا نہیں۔انہیں تو بس اسی سے سروکار ہے کہ ان کو مشکلات سے نکلنے کیلئے کسی نے روزگار تو فراہم کردی ہے۔اب یہ روزگار فراہم کرنے والے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے افراد کے استحصال سے گریز کریں کہ جو اس مشکل دور میں ان کے ہاں رزق کا وسیلہ تلاش کرنے آئے ہیں۔