یکم دسمبر دوہزاراکیس: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) نے ملک کے 40 بڑے شہروں میں جائیداد کی قیمتوں میں 100 سے 600 فیصدی اضافے کا اعلان کیا۔ ذہن نشین رہے کہ 2019ء میں بھی ایک ایسا ہی اقدام کیا گیا تھا جس کے تحت جائیداد کی قیمتیں 30 سے 85 فیصد بڑھائی گئی تھیں۔ اندیشہ تھا کہ جائیداد کی قیمتیں جو تیس سے پچاسی فیصد بڑھائی گئی ہیں تو اِس سے جائیداد کی خریدوفروخت (پراپرٹی ڈیلرز) کا کاروبار متاثر ہوگا اور جائیدادوں کی خریدوفروخت کا عمل رک جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا اور ایسے تمام اندیشے باطل ثابت ہوئے کیونکہ ملک کے کئی بڑے شہر ایسے بھی ہیں جہاں فی مرلہ زمین کی قیمت ایک کروڑ روپے سے تجاوز کر چکی تھی لیکن اِس کی سرکاری قیمت ایک لاکھ یا اِس سے کم تھی۔ یکم دسمبر کے روز جائیداد کی قیمتوں پر نظرثانی کا آغاز چونکہ 100 فیصد اضافے سے کیا گیا اِس لئے ملک بھر میں پراپرٹی ڈیلرز نے احتجاج کیا اُور فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔سات دسمبر دوہزار اکیس: جائیداد کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے پر جاری تنازع کو ختم کرنے کے لئے ’ایف بی آر‘ نے جنوری دوہزاربائیس (ایک ماہ) تک ٹیکسوں کے لئے نئی قیمتوں کو مؤخر کردیا۔ اِس فیصلے سے بظاہر ’پراپرٹی ڈیلرز‘ کی فتح ہوئی ہے جو اپنی بات منوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ جائیداد کی قیمتوں پر نظرثانی کا فیصلہ مؤخر یا معطل کیا گیا ہے ختم نہیں ہوا۔ ایف بی آر کے فیصلے کے بعد جائیداد کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ اور ریئل اسٹیٹ کے سٹیک ہولڈرز کی جانب سے شکایات موصول ہو رہی تھیں۔ خیال رہے کہ ایف بی آر نے یکم دسمبر کو ملک کے چالیس بڑے شہروں میں ٹیکس لگانے کے مقصد سے پراپرٹی کی قیمتوں میں اضافہ کیا تھا تاکہ انہیں مارکیٹ ریٹ کے برابر لایا جا سکے۔ جائیداد کے لین دین پر اصل انکم ٹیکس وصول کرنے کے لئے نرخوں پر نظر ثانی کی گئی تھی۔ اس ضمن میں جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ ”اِن لینڈ ریونیو کے تمام چیف کمشنرز قیمتوں پر نظرِ ثانی کی کمیٹیاں (وی آر سیز) تشکیل دیں گے اور انہیں دس دسمبر تک نوٹیفائی کیا جائے گا جبکہ کوئی بھی سٹیک ہولڈر جسے قیمتوں پر تحفظات ہوں وہ پندرہ دسمبر تک درخواست دے سکتا ہے یعنی اِس سلسلے میں سٹیک ہولڈرز کے اعتراضات کو سنا جائے گا جہاں سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کی جائے گی اور جائیدادوں کی نئی قیمتوں کے تعین کیلئے سٹیٹ بینک سے منظور شدہ قیمتوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ’ایف بی آر‘ بہرصورت جائیدادوں کی قیمتوں میں اضافہ کرے گی اور اِس سلسلے میں کم سے کم اضافہ بھی 100فیصد ہی رکھا جائے گا البتہ زیادہ سے زیادہ اضافے کی شرح چھ سو سے کم کر کے پانچ سو فیصد ہو سکتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ’ایف بی آر‘ نے قبل ازیں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعلیٰ پراپرٹی ویلیوایشن ماہرین کو شامل کرنے کا اعلان کیا ہے جو اہم اسٹیک ہولڈرز اور ٹاؤن ڈویلپرز‘ ریئل اسٹیٹ ایجنٹس کے ساتھ بامعنی مشاورت کریں گے۔ جہاں تک ’ایف بی آر‘ کے مشاورتی عمل کا تعلق ہے تو یہ عمل جب تک مکمل نہیں ہو جاتا‘ جنوری دوہزاربائیس کے وسط تک نئی قیمتوں کا اطلاق معطل رہے گا۔ ایف بی آر کو حال ہی میں جائیداد کی نئی قیمتوں کے اعلامیے کے بعد ملک بھر سے متعدد سٹیک ہولڈرز بشمول ریئل اسٹیٹ ایجنٹس اور ٹاؤن ڈویلپرز کی جانب سے پراپرٹی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کی شکایات موصول ہوئیں تھیں۔ ’ایف بی آر‘ نے جائیداد کی قیمتوں میں بے ضابطگیوں کا جائزہ لینے اور اسے معقول بنانے کے لئے اپنائے جانے والے طریقہئ کار کے حوالے سے ایک آفس میمورنڈم کے ذریعے تفصیلی ہدایات جاری کیں ہیں جن کے مطابق ’ان ویلیوایشن ٹیبل‘ کا جائزہ لیا جائے گا اور جہاں سٹیک ہولڈرز نے قیمتوں کے زائد یا کم ہونے کی نشاندہی کی ہے اُن کے مطابق تبدیلیاں کی جائیں گی۔ ایف بی آر کی کوشش ہے کہ جائیداد کی سرکاری مقرر شدہ قیمتیں اور اصل مارکیٹ قیمتوں کے درمیان فرق کو قریب لایا جاسکے تاہم بیورو کو متعدد سٹیک ہولڈرز کی جانب سے شکایات موصول ہونے کے بعد مبینہ بے ضابطگیوں اور مبینہ خامیوں کا جائزہ لیا جائے گا۔