سیاسی اَخلاقیات

اخلاق کا نچوڑ یہ ہے کہ ’جھوٹ‘ غیبت یا تہمت‘ سے گریز کیا جائے۔ بقول آتش بہاولپوری ”یہ ساری باتیں درحقیقت ہمارے اخلاق کے منافی …… سُنیں بُرائی نہ ہم کسی کی‘ نہ خود کسی کو بُرا کہیں ہم۔“ اِس تمہید اور  نتیجہئ خیال کو ذہن میں رکھتے ہوئے خبر ملاحظہ کیجئے کہ ”تحریک ِانصاف نے کارکنوں کی ”اخلاقی تربیت“ کا فیصلہ کیا ہے“ جو پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے اپنی نوعیت کا منفرد  اقدام ہے اور یقینا اِس بات (کوشش) کی ایک عرصے سے ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ اِس مرحلہئ فکر پر 2 باتیں اہم ہیں۔ سیاست سماج کی عکاس ہے تو کیا صرف سیاسی کارکنوں ہی کو اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے یا معاشرے کی ہر سطح پرعوام الناس کو تربیتی مراحل و ماحول سے گزرنا چاہئے اُور دوسری بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں جو ایک دوسرے کی ٹوہ میں عموماً بھیڑ چال کا مظاہرہ کرتی ہیں کیا ’تحریک انصاف‘ کی دیکھا دیکھی کارکنوں کی اخلاقی تربیت کا اہتمام کریں گی یا اُنہیں بھی ایسا کرنا چاہئے؟ اہل الرائے سے الگ ’سیاسی اَخلاقیات‘ کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ  ”محبت نفرت اور سیاست میں سب جائز ہوتا ہے۔“ اُور یہی وجہ ہے کہ سیاست میں ایک خاص قسم کی بودوباش رکھنے والے طبقات سرگرم دکھائی دیتے ہیں‘ جن کے مدمقابل وہی ہوتے ہیں جو اِن جیسی سوچ یا عمل پر یقین رکھنے کی ذہنیت اور صلاحیت کے حامل ہوں۔  بہرحال سیاسی اخلاقیات کی ضرورت اور تذکرہ کرتے ہوئے بالخصوص اور عموماً صرف ’عام سیاسی کارکنوں‘ کا تذکرہ کیا جاتا ہے جبکہ سیاست و اخلاقیات الگ الگ موضوعات ہیں اُور اُنہیں سیاست بطور پیشہ اختیار کرنے والوں سے زیادہ عام آدمی کو سمجھنا چاہئے تاکہ وہ کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت اور بالخصوص اپنا حق ِرائے دہی استعمال کرتے وقت ”درست“ فیصلہ کر سکے۔لفظ ’سیاست‘ کا لغوی مطلب فریقین کو ایک دوسرے کے قریب لانا یا قومی‘ صوبائی اور علاقائی سطح پر پائے جانے والے اختلافات ختم یا اِنہیں کم کرنے یا ایسا ماحول پیدا کرنا ہے کہ جس میں اختلافات سرے سے پیدا ہی نہ ہوں۔ سیاست کے بعد دوسری اصطلاح ”اَخلاق“ کے تقاضے سمجھنے کی ہے جو زیادہ وسیع المعانی موضوع ہے۔ اَخلاق کا مادہ(خ‘ل‘ق) ہے اگر لفظ ”خ“ کے اُوپر زَبر پڑھیں یعنی خَلق تو اِس کے معنی ظاہری شکل وصورت ہوں گے اور اگر ”خ“ پر پیش پڑھیں یعنی ”خُلق“ تو اِس کا مطلب باطنی اور داخلی ونفسانی شکل وصورت کے ہوں گے مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ فلاں انسان خُلق و خَلق دونوں اعتبار سے نیک ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ظاہری صورت اور باطنی حالت دونوں اچھے ہیں۔ خُلق ”نفسانی ملکہ“ ہے جو کسی انسان کے بغیر فکرو تامل اور غور و خوض کے اُس کے معمولات پر حاوی نظر آئے یعنی نفسانی کنٹرول کے ذریعہ سرانجام دیئے جانے والے اعمال کو خُلق کہا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ ”خَلق“ اُور ”خُلق“ دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ تحریک انصاف میں ’تعلیم و تربیت‘ کا خصوصی شعبہ (اِیجوکیشن ٹریننگ ڈیپارٹمنٹ) موجود ہے۔ اِس شعبے کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری (سنٹرل) اعجاز بٹ نے پشاور کے ایوان ِصحافت میں ’پریس کانفرنس (دس دسمبر دوہزاراکیس)‘ کے دوران کہا کہ ”پارٹی کارکنوں کو اخلاقیات سکھانا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ خدمات کی فراہمی میں یہ ’ورکرز‘ بہتر اَنداز میں اپنا مؤقف پیش کر سکیں کیونکہ موجودہ دور میں بہتر کارکردگی اور گڈ گورننس (اچھے طرزحکمرانی) کے لئے اَخلاقیات کا ہونا بہت ضروری ہے۔“ اِس ضرورت و حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ صرف سیاست ہی نہیں بلکہ ہر شعبہئ زندگی پر ’اَخلاقیات‘ حاوی ہونے چاہیئں۔اخلاقیات کی تربیت صرف سیاست ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے اور بالخصوص ”باب الاخلاق“ ہر درجے کی نصاب ِتعلیم کا ’مستقل حصہ‘ ہونا چاہئے یعنی درجہئ اوّل سے درجہئ آخر تک اَخلاق کے مختلف پہلوؤں کے بارے اسباق ’اخلاقیات‘ کے مختلف پہلوؤں کو کھول کھول کر بیان کریں اور صرف یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے سماج کی گاڑی اخلاقیات کی پٹڑی پر رواں دواں ہو سکتی ہیں۔